غیر ملکی افواج نے مقررہ تاریخ تک انخلا مکمل نہ کیا تو ردعمل دیں گے، طالبان
طالبان کا کہنا ہے کہ تمام غیر ملکی افواج نے مقررہ تاریخ تک افغانستان سے انخلا مکمل نہ کیا تو ردعمل دیں گے۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) سے گفتگو کرتے ہوئے قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ 'انخلا کا عمل مکمل ہونے کے بعد فوجی کانٹریکٹرز سمیت کوئی غیر ملکی افواج ملک میں نہیں رہنی چاہئیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'اگر وہ دوحہ میں ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی افواج کو پیچھے چھوڑتے ہیں تو اس صورت میں یہ ہماری قیادت کا فیصلہ ہوگا کہ ہم کس طرح آگے بڑھیں، ہم اس پر ردعمل دیں گے اور حتمی فیصلہ ہماری قیادت کا ہوگا'۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں طالبان کے حملوں میں اضافہ، قندھار کے اہم ضلع پر بھی قابض
واضح رہے کہ طالبان کی جانب سے یہ بیان ان میڈیا رپورٹس کے بعد سامنے آیا ہے کہ سفارتی مشن اور کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی حفاظت کے لیے تقریباً ایک ہزار امریکی فوجی افغانستان میں رہنے کا امکان ہے۔
سہیل شاہین نے کہا کہ 'سفارت کاروں، غیر سرکاری تنظیموں اور دیگر غیر ملکیوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا لہٰذا ملک میں کسی بھی حفاظتی فورس کی ضرورت نہیں ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم غیر ملکی فوجی قوتوں کے خلاف ہیں لیکن سفارت کاروں، این جی اوز، سفارتخانے اور ان میں کام کرنے والوں کے خلاف نہیں کیونکہ ان کی ہمارے لوگوں کو ضرورت ہے، ہم ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں بنیں گے'۔
طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے افغانستان میں امریکا کے سب سے بڑے فوجی اڈے 'بگرام ایئربیس' سے غیر ملکی افواج کے انخلا کو 'تاریخی لمحہ' قرار دیا۔
یاد رہے کہ تین روز قبل امریکی افواج نے طالبان کے ساتھ معاہدے کے تحت بگرام ایئربیس افغان حکومت کے حوالے کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: امریکی افواج نے 20 سال بعد بگرام ایئربیس خالی کردی
امریکی محکمہ دفاع کے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تمام نیٹو اراکین اور امریکی سپاہی بگرام ایئربیس چھوڑ چکے ہیں۔
کابل کے شمال میں واقع بگرام ایئربیس سے غیر ملکی افوان کے اخراج کے بعد طالبان جنگجوؤں کی جانب سے مزید علاقوں میں قبضے کی مہم کو تقویت پہنچنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے حتمی انخلا کی تاریخ نائن الیون حملے کے 20 سال مکمل ہونے کی مناسبت سے 11 ستمبر مقرر کی گئی تھی لیکن اس سے عسکریت پسندوں اور افغان حکومتی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔