تقسیمِ ہند: امریکا و برطانیہ کے مابین معاہدہ اٹلانٹک
18ویں صدی سے 20ویں صدی کے وسط تک، دنیا میں دولت برطانیہ کی حکومت رہی۔ اس دوران اقوام کو محکوم بنانے کے لیے نوآبادیاتی سیاسی نظام نافذ کیے گئے۔ اس عہد نے برطانیہ سمیت مغربی یورپ کو اقتصادی قوت بنایا اور اقتصادی خوشحالی کے بعد سائنسی دریافت و ایجادات کا نیا دور شروع ہوا۔ ستم دیکھیے کہ اس دور کی ابتدا بھی بنگال سے چُرائی گئی دولت سے ہوئی۔
اقتصادی لوٹ مار کے برطانوی ورلڈ آرڈر کو دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر ہی شکست ہوگئی تھی کیونکہ امریکا اس جنگ میں شامل ہونے سے پہلے ہی اپنا ورلڈ آرڈر منوانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ برطانیہ کی کمزور اقتصادیات کو امریکا کی جدید عسکری قوت نے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔
امریکا نے برطانیہ کو ایک معاہدے سے فتح کرلیا اور ساتھ میں مابعد نوآبادیاتی (Postcolonialism) نظام کے امریکی تصورات کی بنیاد رکھ دی۔
امریکی صدر فرینکلین روز ویلٹ اور برطانوی وزیرِاعظم ونسٹن چرچل کے درمیان اگست 1941ء میں بحر اوقیانوس میں ایک خفیہ ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات سے جنگ میں شریک جرمن، روس، جاپان اور دیگر ممالک لاعلم رہے۔ دنیا کی نئی طاقت کا فیصلہ بحر اوقیانوس میں ہوگیا۔ اس ملاقات میں برطانیہ کو 'معاہدہ اٹلانٹک' پر دستخط کرکے عالمی اجارہ داری سے دستبردار ہونا پڑا اور نوآبادیاتی ریاستوں میں استعماری تسلط کے خاتمے کی صبح طلوع ہوئی۔ معاہدہ اٹلانٹک کے تحت مابعد جنگ دنیا میں امریکی آرڈر نافذ کرنے کا فیصلہ ہوا۔
یہ معاہدہ جہاں افریقی اقوام کے لیے صبح نو ثابت ہوا وہیں ہندوستان میں برطانیہ کی 200 سالہ سیاسی و اقتصادی جبر کے عہد کے خاتمے کا باعث بھی بنا۔ معاہدہ اٹلانٹک نے ہندوستان کی آزادی کی تحریکوں کو نئی قوت بخشی اور برطانوی استعمار کے خلاف 2 صدیوں سے جاری مزاحمت میں تیزی آئی۔
لیکن حیران کن طور پر پاکستان کے نصاب میں معاہدہ اٹلانٹک کو شامل ہی نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اس اہم ترین معاہدے سے متعلق ہمارا تعلیم یافتہ نوجوان عمومی آگہی نہیں رکھتا۔
ونسٹن چرچل کی کتاب Second World War: The Grand Alliance میں معاہدہ اٹلانٹک کی تفصیلات درج ہیں۔ یہ کتاب 1950ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس خفیہ ملاقات میں طے پانے والے اس معاہدہ کا احوال ایلیٹ روز ویلٹ کی کتاب As He Saw It میں بھی ملتا ہے۔ یہ کتاب 1946ء میں پہلی بار شائع ہوئی اور ایک سال بعد بمبئی سے اس کا انڈین ایڈیشن شائع ہوا۔
40ء کی دہائی میں امریکا سعودی عرب سے معاہدہ کرکے مشرق وسطیٰ میں تیل کے ذخائز کی کھوج کے لیے اپنی بالادستی قائم کرچکا تھا اور اب یورپ و ایشیا اور افریقہ میں قائم برطانوی کالونیز کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا۔ اس خفیہ ملاقات کے دوران، برطانوی ایمپائر پر امریکی صدر روز ویلٹ نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ایلیٹ روز ویلٹ کی کتاب میں ان ملاقاتوں کا احوال درج ہے جس میں امریکی صدر نے برطانوی اقتصادی ماڈل پر تنقید کی۔
صدر روز ویلٹ نے کہا: 'اقتصادی ترقی کے لیے برطانیہ کو مصنوعی رکاوٹیں ہٹانا ہوں گی۔ اقتصادی اجارہ داری کے مقابلے پر مارکیٹ میں مسابقت کا ماحول پیدا کرنا ناگزیر ہے۔ برطانوی ایمپائر کے معاہدات نے اقتصادی فوائد کو محدود کیا ہے، برطانیہ کے تجارتی معاہدات اب ختم ہوں گے۔ انہی معاہدات کی وجہ سے ہندوستان اور افریقی عوام سمیت مشرق کی نوآبادیات کے باشندے پسماندگی کا شکار ہیں۔ عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد امن تب ہی ممکن ہے جب آزادانہ تجارت ہوگی'۔
کتاب کا مصنف مزید لکھتا ہے کہ چرچل نے امریکی صدر کو جواب دیا: 'برطانیہ ایک لمحے کے لیے بھی اپنا ایمپائر کھو دینے کو تیار نہیں ہے۔ برطانوی وزرا کی طے کردہ تجارتی شرائط ہی رائج رہیں گی، اسی تجارت نے برطانیہ کو عظیم تر بنایا ہے'۔
امریکی صدر روز ویلٹ نے جواباً کہا: 'دیکھو چرچل! اب ہم دونوں کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، میرا یہ پختہ یقین ہے کہ اگر ہم ایک پائیدار امن چاہتے ہیں تو ہمیں پسماندہ ممالک کی ترقی کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ نوآبادیاتی ممالک کے افراد کو پسماندگی سے نکالنے کے لیے 18ویں صدی کی پلاننگ اب مزید نہیں چل سکتی‘۔
چرچل نے فوری طور پر جواب دیا: 'اب 18ویں صدی کے منصوبوں اور پلاننگ کی بات کون کر رہا ہے؟'
روز ویلٹ نے واضح کیا: 'برطانیہ کے کچھ وزرا نوآبادیاتی ممالک سے خام مال کی شکل میں دولت سمیٹنے کی پالیسی کی حمایت کرتے ہیں، تاہم اس دولت کے عوض نوآبادیاتی ملک کے عوام کو کچھ بھی نہیں دیا جاتا۔ اب ہمیں 20ویں صدی کی ضروریات کے تحت نیا منصوبہ رائج کرنا ہوگا جس کے تحت ان ممالک میں صنعتی ترقی ہو، نوآبادیاتی باشندوں (محکوم عوام) کے معیارِ زندگی میں اضافہ ہو، ان کی تعلیم کا بندوبست ہو، حفظانِ صحت کے بہترین انتظامات کیے جائیں تاکہ خام مال کی صورت میں ان ممالک سے حاصل کیے گئے وسائل کے عوض مذکورہ سہولیات کی صورت میں ان ممالک کو دولت واپس کی جائے'۔
چرچل نے امریکی صدر سے پوچھا کہ: 'آپ کا اشارہ ہندوستان کی طرف ہے؟'
جواب میں امریکی صدر نے کہا، 'ہاں!'
روز ویلٹ نے مزید کہا کہ ’میں یقین نہیں کرسکتا کہ ہم ایک طرف فاشسٹ غلامی (جرمن) کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور دوسری جانب پسماندہ نوآبادیاتی پالیسی سے پوری دنیا کے لوگوں کو آزاد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ امن کسی آمرانہ تسلسل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ امن کا ڈھانچہ عوامی مساوات کا تقاضا کرتا ہے اور یہ انہیں مل کر رہے گی۔ عوامی مساوات کے لیے بے پناہ آزادئ مسابقتی تجارت کا ہونا ضروری ہے۔ کیا کوئی یہ کہے گا کہ جرمنی کی وسطی یورپ میں تجارت پر غلبہ جنگ کی اہم وجہ نہیں تھی؟'
اس نشست کے برخاست ہونے کے بعد روز ویلٹ کے بیٹے نے کہا کہ 'آپ ہندوستان کے موضوع کو کب چھوڑیں گے؟'
جواباً امریکی صدر نے کہا کہ، 'مجھے نہیں معلوم، مجھے لگتا ہے کہ ہم بات چیت میں آگے بڑھنے کے دوران ہندوستان کے بارے میں مزید بات کریں گے، برما، انڈوچین، انڈونیشیا، مصر، فلسطین حتیٰ کہ تمام برطانوی کالونیز کے بارے میں بات کریں گے'۔
روز ویلٹ نے کہا، 'ایک بات یاد رکھو! چرچل کی زندگی کا صرف اور صرف ایک ہی مشن ہے، اگرچہ وہ اس عالمی جنگ کا بہترین وزیرِاعظم ہے، مگر اس کا سب سے بڑا مشن و ہدف جنگ میں برطانیہ کی فتح کو یقینی بنانا ہے‘۔
اگلے روز پھر نشست ہوئی۔ برطانوی وزیرِاعظم چرچل نے کہا: 'مجھے یقین ہے کہ آپ (امریکا) برطانوی ایمپائر کو ختم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ عالمی جنگ کے بعد کی دنیا کے ڈھانچے کے بارے میں آپ کا ہر خیال اس کو تقویت دے رہا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ آپ (امریکا) ہماری واحد امید ہے'۔
ان جملوں کے بعد چرچل نے امریکی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے تاریخی جملوں میں یہ اعتراف کیا، جنہیں اردو کے ساتھ انگریزی میں نقل کرنا ضروری ہے۔ چرچل نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا:
You know that, we know it. You know that we know that without America, the Empire won’t stand.
(آپ کو معلوم ہے، ہم بھی جانتے ہیں۔ آپ کو پتا ہے کہ امریکا کے بغیر ایمپائر باقی نہیں رہے گا)
چرچل کو معلوم ہوچکا تھا کہ اب امریکی بالادستی کے تحت عالمی امن کے تصورات رائج ہوں گے۔ چرچل نے اعتراف کیا کہ برطانوی نوآبادیاتی پالیسی ایک مردہ بطخ ہوگی، اور برطانیہ کی عالمی تجارت پر غلبہ حاصل کرنے کی پالیسی ایک مردہ بطخ ہوگی، امریکا سے مقابلہ کرنے کے برطانوی عزائم بھی ایک مردہ بطخ ثابت ہوں گے۔
امریکی صدر روز ویلٹ ہندوستان کے مستقبل اور برطانوی تسلط سے آزادی کے لیے قائل بھی تھے چنانچہ روز ویلٹ کا تصور تھا کہ:
'ہندوستان کو دولتِ مشترکہ کا ممبر بنایا جانا چاہیے، ممبر بننے کے 5 یا 10 سال کے بعد ہندوستان برطانوی سلطنت کا حصہ رہنے یا مکمل آزادی کا فیصلہ کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ دولتِ مشترکہ کا ممبر ہونے کی حیثیت سے ہندوستان مناسب صحت اور تعلیمی معیار سمیت ایک جدید طرز کی حکومت کا حق دار ہوگا، لیکن یہ سب کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ جبکہ ہر سال برطانیہ ہندوستان کے قومی وسائل اور دولت لوٹ رہا ہے، ہر سال ہندوستانی صرف موت اور مزید ٹیکس عائد ہونے کے منتظر ہوتے ہیں، اور پھر قحط کا ایک نیا موسم شروع ہوتا ہے۔'
انہی نشستوں کا اختتام ایک معاہدے کی دستاویز کی تیاری پر ہوا اور پھر دونوں سربراہانِ مملکت نے اس دستاویز پر دستخط کیے۔ چرچل نے معاہدہ اٹلانٹک کا ابتدائی مسودہ امریکی صدر کو بھجوایا، جس کا عنوان 'جوائنٹ اینگلو امریکن ڈیکلیئریشن آف پرنسپلز' تھا۔ چرچل نے اپنی کتاب میں معاہدے کا ابتدائی مسودہ درج کیا ہے، جس میں درج ذیل شقیں شامل کی گئیں:
- دونوں ممالک جغرافیائی یا کسی دوسرے طریقے سے اپنی طاقت بڑھانے کی جستجو نہیں کریں گے۔
- ان کی خواہش ہے کہ ایسی کوئی جغرافیائی تبدیلیاں نہ کی جائیں جو متعلقہ قوم کی آزادانہ خواہشات کے مطابق نہ ہوں۔
- دونوں ممالک لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق طرزِ حکومت چننے کے حق کا احترام کرتے ہیں اور لوگوں کے ان خودمختارانہ حقوق اور لوگوں کی اپنی حکومت کی بحالی کے خواہشمند ہیں جنہیں جبری طور پر سلب کیا گیا۔
- دونوں ممالک موجودہ شرائط کا احترام کرتے ہوئے چھوٹی بڑی، شکست خوردہ یا فتح یاب، تمام ریاستوں تک دنیا کی تجارت اور اس خام مال تک رسائی دینے کی بھرپور کوشش کریں گے جو ان کی اقتصادی خوشحالی کے لیے درکار ہے۔
- وہ (برطانیہ و امریکا) تمام اقوام کے مابین اقتصادی میدان میں مکمل باہمی تعاون پیدا کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ بہتر مشقتی معیارات، اقتصادی ترقی اور سماجی تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔
- دونوں ممالک نازیوں کے ظلم و بربریت کے خاتمے کے بعد دنیا میں ایسا پائیدار امن دیکھنا چاہتے ہیں جس کے تحت تمام اقوام اپنی سرحدوں کے اندر محفوظ زندگی گزار سکیں اور ہر ملک کے ہر باسی کو بے خوف زندگی گزارنے کی ضمانت حاصل ہو۔
امریکی صدر روز ویلٹ نے چرچل کے مسودے میں ترامیم کردیں اور چوتھی شق میں 'امتیازی سلوک کے بغیر اور برابری کی سطح پر' کے الفاظ کا اضافہ کیا اور مسودے میں مزید 2 شقوں کا اضافہ کردیا۔ امریکی صدر نے درج ذیل شقیں معاہدے میں شامل کیں:
- وہ (برطانیہ و امریکا) ایسے امن کی خواہش کرتے ہیں کہ جو بحر الخطیر اور سمندروں میں ہر قسم کی حفاظت کے لیے کام کرے۔
- دونوں ممالک سمجھتے ہیں کہ دنیا کی تمام اقوام کو حقیقت پسند اور روحانی وجوہات کی بنا پر طاقت کے استعمال کو ترک کرنے پر راضی ہونا چاہیے۔ جو ممالک اپنی سرحدوں کے پار دیگر ممالک کے لیے جارحیت کا خطرہ پیدا کرتے ہیں یا ایسا کرسکتے ہیں، وہ جب تک خود کو بری، بحری یا فضائی اسلحے سے لیس کرتے رہیں گے تب تک امن برقرار نہیں رہ پائے گا۔ عام تحفظ کے وسیع تر اور مستقل نظام کا قیام عمل نہیں آسکے گا، لہٰذا ایسے ملکوں کا اسلحے سے خود کو پاک کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح دونوں ممالک ایسے تمام دیگر قابلِ عمل کاموں میں اپنا حصہ ڈالیں گے اور ان کی حوصلہ افزائی کریں گے جو امن پسند لوگوں پر سوار اسلحے کے بھاری بوجھ کو ہلکا کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
صدر روز ویلٹ اور وزیرِاعظم چرچل کے درمیان اس معاہدے کی چوتھی اور 7ویں شق پر تفصیلی بحث ہوئی۔ 12 اگست 1941ء کو اس معاہدے کو حتمی شکل دی گئی۔ 12 اگست کو ہی سابقہ سویت یونین کے صدر جوزف اسٹالن کے نام روز ویلٹ اور چرچل نے ایک مشترکہ خط لکھا جس میں اس معاہدہ سے متعلق انہیں آگاہ کیا گیا اور 14 اگست 1941ء کو اس معاہدے پر دستخط کردیے گئے۔
ہندوستان میں چونکہ برطانوی راج کے خلاف تحریک پہلے ہی شدت اختیار کرچکی تھی اور ہندوستانی کامل آزادی کا نعرہ بلند کرچکے تھے چنانچہ معاہدہ اٹلانٹک میں شامل تیسری شق کا ہندوستان میں پرتپاک استقبال کیا گیا۔
اس ضمن میں 27 اگست کو بمبئی کرانیکل نے معاہدہ اٹلانٹک کو 'ہندوستان میں عالمگیر احساس' کو بیدار کیا ہے اور یہ لکھا کہ چرچل کو معاہدہ اٹلانٹک کے وعدوں میں ہندوستان کو یاد رکھنا چاہیے۔ دراصل اس معاہدے کی تیسری شق میں ہندوستانی مطالبہ شامل تھا چنانچہ بمبئی کرانیکل نے اس معاہدے میں شامل ہندوستانی مطالبے کو آل انڈیا ریڈیو کی نشریات میں شامل نہ کرنے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ اگر برطانیہ نے معاہدے میں خودارادیت کے اصول کو قبول کیا ہے تو یہ واضح رہنا چاہیے کہ وہ ہندوستان پر بھی یکساں طور پر لاگو ہوگا۔
اس معاہدہ کے بعد برطانوی پارلیمان میں تہلکہ برپا ہوا اور ایک مہینے بعد 9 ستمبر کو چرچل کی تقریر کے دوران یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا معاہدہ اٹلانٹک کا اطلاق ہندوستان پر بھی ہوگا؟ پارلیمان میں سخت مباحثہ ہوا اور اس دوران چرچل نے معاہدے میں شامل تیسری شق کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا 'برطانوی حکومت کی موجودہ پالیسیوں نے چارٹر میں رکھے گئے خودارادیت کی شرائط پہلے ہی پوری کردی ہیں'۔ چرچل نے دراصل چارٹر کی شقوں اور اصل برطانوی شاہی پالیسی کے مابین فرق اجاگر کرکے اس سوال کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
برطانوی پارلیمان میں معاہدہ اٹلانٹک کے تناظر میں ہندوستانی مستقبل پر مباحثہ ایک مہینے تک جاری رہا۔ چرچل نے ہندوستانی قوم پرستوں کو یہ فرض کرنے کی اجازت دی کہ اٹلانٹک چارٹر ان پر لاگو ہوتا ہے اور وہ اپنا نظریہ پیش کرسکتے ہیں کہ معاہدہ اٹلانٹک کو ہندوستان پر کیسے لاگو ہونا چاہیے۔ ہندوستانی آزادی کے حامیوں نے برطانوی پارلیمان میں برٹش پالیسی پر تنقید کی چنانچہ اس دوران اٹلانٹک معاہدے کو ہندوستانی نوآبادیات اور مابعد نوآبادیات کے تناظر میں لاگو کرنے پر ایک نئی بحث نے مستقل طور پر جنم لے لیا۔
دوسری جانب چرچل نے یہ تاثر دیا کہ معاہدہ اٹلانٹک کا اطلاق ہندوستان پر نہیں ہوگا بلکہ برطانوی پارلیمان میں تقریر کے دوران ہندوستان کی آزادی کے خلاف نازیبا الفاظ بھی استعمال کیے جس پر بعد ازاں ہندوستان میں سخت ردِعمل ہوا۔ عالمی جنگ کے دوران معاہدے کے تحت امریکا نے برطانیہ کو لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کی تاہم ہیروشیما اور ناگا ساکی میں امریکی ایٹم بم گرنے کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ ہوا اور اس کے بعد برطانیہ عالمی سطح پر امریکی طاقت کو قبول کرچکا تھا۔
اب امریکا نے معاہدہ اٹلانٹک پر عمل درآمد کے لیے برطانیہ پر مسلسل دباؤ ڈالا یہی وجہ ہے کہ جنگ بندی کے 2 برس بعد ہی برطانیہ کو ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ یہاں کی آزادی کی تحریکوں کو سبوتاژ کرنے اور کامل آزادی کے مطالبات کے برعکس برٹش پارلیمان میں فروری 1947ء میں تقسیمِ ہند کا قانونی مسودہ منظوری کے لیے پیش کردیا۔ نسیم احمد باجوہ کی کتاب انڈین انڈیپینڈنس اینڈ برٹش پارلیمنٹ میں آزادی ہند کے قانونی مسودے پر برطانوی پارلیمان میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کی ہونے والے تقاریر کو جمع کیا گیا ہے، جس کے مطابق پارلیمان میں برطانوی وزیرِاعظم ایٹلی نے یہ بیان دیا کہ ہندوستان چھوڑنے کے لیے برطانیہ کے پاس کم وقت ہے چنانچہ برطانوی استعمار گریٹ گیم کے تحت ہندوستان کی کامل آزادی کے مطالبات کے برعکس تقسیمِ ہند کرکے چلا گیا۔
معاہدہ اٹلانٹک کے تحت تو برطانیہ ہندوستان چھوڑنے کا پابند تھا لیکن تقسیم کے بعد اس خطے میں نئے سیاسی و اقتصادی مسائل نے جنم لیا۔ یہی وجہ ہے کہ سیکیورٹی اسٹیٹس میں تبدیلی کے لیے برِصغیر کی 2 ریاستیں قومی بجٹ کا کثیر حصہ دفاع پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں اور مذہب کی بنیاد پر ہونے والی اس تقسیم نے دونوں ممالک کو مزید گروہیت اور فرقہ واریت میں تقسیم کیا ہے۔
تقسیمِ ہند کے بعد اس خطے میں برطانیہ کی جگہ امریکی حاکمیت قائم ہوگئی اور جس مذہبی و سیاسی تصورات کے تحت آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگرس بٹوارے پر آمادہ ہوئی تھیں آج یہی تصورات شدت پسندی کے فروغ اور اس خطے کی ترقی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ آج ان دونوں ممالک کو اپنے سیاسی تصورات کا از سرِ نو جائزہ لینا ہوگا اور عالمی استعماریت کے حربوں کا شکار ہونے سے اپنی قوم کو بچانا ہوگا۔
تبصرے (3) بند ہیں