• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

کراچی کی ساحلی پٹی پر موجود عمارتیں کس قدر محفوظ ہیں؟

شائع July 2, 2021
لکھاری ایک وکیل ہیں اور کونسٹیٹیوشنل لا اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔
لکھاری ایک وکیل ہیں اور کونسٹیٹیوشنل لا اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔

اس وقت رات کے ڈیڑھ بجے تھے۔ جوار کم تھا اور آسمان پر پورا چاند نکلا ہوا تھا۔ چیمپلن ٹاورز ساؤتھ کے سیکڑوں رہائشی سکون کی نیند سو رہے تھے۔ سرف سائیڈ میں واقع یہ 12 منزلہ عمارت ایک ایسے رقبے پر قائم تھی جسے سمندر کی بھرائی کرکے بنایا گیا ہے۔ اس علاقے میں اس جیسی مزید کئی عمارتیں بھی موجود ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ عمارت گرنے سے پہلے انہوں نے اک گڑگڑاہٹ سنی تھی۔ عمارت کا درمیانی حصہ پہلے زمیں بوس ہوا اور پھر تقریباً 30 سیکنڈ بعد دوسرا حصہ بھی گرگیا۔ یہ 30 سیکنڈ ان لوگوں کے لیے بہت ہی دردناک ہوں گے جو درمیانی حصے کے گرنے سے جاگ چکے ہوں گے۔ درمیانی حصے میں موجود لوگوں کو تو شاید کچھ معلوم بھی نہ ہوا ہو لیکن بعد میں گرنے والے حصے کے رہائشیوں کو حالات کی حقیقت کا علم ہوچکا ہوگا۔

ریسکیو اہلکاروں نے ملبے میں دبے افراد کی تلاش بھی شروع کردی ہے لیکن اس کوشش سے کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں ہیں۔ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ 2018ء میں تیار ہونے والی ایک رپورٹ میں عمارت کو ہونے والے سنگین نقصانات کا ذکر کیا گیا تھا۔

عمارت کے نیچے بنے پارکنگ لاٹ میں عمارت کا وزن برداشت کرنے والی بنیادوں میں دراڑیں موجود تھیں۔ عمارت کا سوئمنگ پول لیک کررہا تھا اور پانی نیچے موجود پارکنگ لاٹ کے ستونوں میں رس رہا تھا۔ اس حوالے سے مقدمات دائر کردیے گئے ہیں اور میامی ڈیڈ کاؤنٹی، جہاں سرف سائیڈ واقع ہے اور وفاقی حکومت نے اس حوالے سے متعلق تحقیقات کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ نیشنل پبلک ریڈیو کے مطابق اس حوال سے ہونے والی تحقیقات کئی برس تک جاری رہ سکتی ہیں۔

یہ بات ناممکن ہے کہ آب اس بدقسمت عمارت کے بارے میں ہونے والی کوریج دیکھ رہے ہوں اور آپ یہ سوچ کر کانپ (حقیقتاً) نہ جائیں کہ کراچی کے ساحلی علاقوں میں قائم اسی قسم کی کثیر المنزلہ عمارتوں کی کیا حالت ہوگی۔

پاکستان میں عمارتوں کا گرنا عمومی واقعات میں شمار ہونے لگا ہے۔ ان میں اکثر واقعات ان غریب کچی آبادیوں میں ہوتے ہیں جہاں بدعنوان ٹھیکے دار ناقص تعمیراتی سامان سے کئی منزلہ عمارتیں بنادیتے ہیں۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے عوامی تحفظ کے لیے بنے کسی قانون پر توجہ نہیں دی جاتی۔

گزشتہ سال سکھر میں ایک عمارت زمیں بوس ہوئی، اس کے بعد کراچی میں لیاری کے علاقے میں ایک 5 منزلہ عمارت بھی گرگئی۔ گزشتہ سال ہونے والی مون سون بارشوں میں بھی عمارتیں گرنے کے واقعات سامنے آئے جس میں سے ایک میں 10 افراد جاں بحق ہوئے۔ اس سال بھی بارشوں کی اسی شدت کی پیش گوئی کی جارہی ہے لیکن سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (کراچی کے دیگر اداروں کی طرح) مخدوش عمارتوں کی نشاندہی کرنے اور انہیں خالی کروانے کے لیے خاطر خواہ کام نہیں کرسکی ہے۔ اس ضمن میں نہ ہی کوئی تیاری کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی انسپیکشن۔

مزید پڑھیے: زمین بوس ہوتا کراچی

مزید یہ کہ کراچی کی ساحلی پٹی پر کئی کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر جاری ہے۔ گزشتہ سال ڈان میں ہی ری کلیمنگ کراچیز ایج کے نام سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) فیز 8 سمیت سمندر سے حاصل کی گئی زمین پر تعمیر ہونے والی عمارتوں میں موجود مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔

پاکستان میں عمارتوں کا گرنا عمومی واقعات میں شمار ہونے لگا ہے
پاکستان میں عمارتوں کا گرنا عمومی واقعات میں شمار ہونے لگا ہے

فلوریڈا میں گرنے والی عمارت کی طرح ہی یہاں کئی کثیر المنزلہ عمارتیں موجود ہیں جن کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی ہے۔ اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں ہے کہ ان کی منصوبہ بندی میں کن معیارات کو مدِنظر رکھا گیا ہے اور عمارت کی تعمیر کس بہتر انداز میں کی گئی ہے۔ یہ بات بھی غیر واضح ہے کہ کیا مستقبل میں ان نئی اور پرانی عمارتوں کی جانچ پڑتال ہوتی رہے گی تاکہ اس بات کا تعین کیا جاتا رہے کہ یہ عمارتیں قابلِ رہائش ہیں یا نہیں۔

اس حوالے سے بھی کم معلومات دستیاب ہیں کہ کراچی کے ساحل پر ان فلک بوس عمارتوں کے نقشہ ساز اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا کررہے ہیں کہ یہ عمارتیں مستقبل میں سمندر برد نہیں ہوں گی، کیونکہ جو عمارتیں سمندر کنارے تعمیر ہوتی ہیں انہیں ہوا، سمندر اور ریت سے مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ دبئی میں تعمیر ہونے والی عمارتوں (جنہیں دیکھ کر یہاں عمارتیں بنائی جارہی ہیں) کی انتظامیہ کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ سمندری پانی سے ہونے والے نقصانات کی مرمت کرواسکیں اور عمارت کے ڈھانچے کو بہتر حالت میں رکھ سکیں۔

پاکستانیوں کو بچت کی عادت ہوتی ہے۔ امکان یہی ہے کہ یہ کام ہم ساحلی علاقوں میں ہونے والی تعمیرات میں بھی کریں گے۔ اس کے نتیجے میں جو عمارتیں تعمیر ہوں گی وہ کچھ غیر مستحکم اور تھوڑی متزلزل ہوں گی، لیکن ان کی تعمیر ممکن بنانے والے سیاسی کھلاڑی ہمیشہ کی طرح روایتی رویہ اختیار کیے رہیں گے۔

فلوریڈا کے سرف سائیڈ میں واقع چیمپلن ٹاورز اور کونڈومینیئمس کے لیے اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ عمارت کا ماندہ حصہ جو اب بھی کھڑا ہے خوفناک منظر دکھا رہا ہے۔ اس میں نظر آنے والے ایک بیڈروم میں بنک بیڈ، تکیے، چادریں اور دفتری کرسی نظر آرہی ہے۔ ریسکیو اہلکاروں کو ملبے میں سے جو کھلونے مل رہے ہیں وہ انہیں ایک مقام پر ان بچوں کی یادگار کے طور پر جمع کر رہے ہیں جو اس حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ عمارت گرنے کے اگلے ہی دن بارش ہوئی اور ہر چیز بھیگ گئی یوں ملبے میں تلاش کا کام مزید مشکل ہوگیا۔ اس کے بعد حادثے کی جگہ پر آگ بھڑک اٹھی جس سے وہ مقام دھوئیں سے بھر گیا اور ملبے میں کسی کے زندہ بچ جانے کے امکانات مزید کم ہوگئے۔

سرف سائیڈ میں ہونے والا حادثہ کراچی کی ساحلی پٹی پر تعمیرات کرنے والوں کے لیے ایک تنبیہہ ہے۔ اگر سندھ حکومت، ڈیفینس ہاوسنگ اتھارٹی یا کسی اور ادارے کے پاس ان عمارتوں کی تعمیر سے قبل کے کوئی منصوبے موجود ہیں تو انہیں ان منصوبوں کو پبلک کرنا چاہیے تاکہ عوام بھی انہیں دیکھ سکیں۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ عمارتوں میں ہنگامی حالات میں باہر نکلنے کے ایسے راستے موجود ہوں جنہیں رہائشی کسی زلزلے یا آگ لگنے کی صورت میں آسانی سے استعمال کرسکیں۔

مزید پڑھیے: ’کراچی نہ پہلے بارشوں کے لیے تیار تھا، نہ اب ہے‘

چیمپلن ٹاورز کے 100 سے زائد رہائشی (جن میں سے اکثر گرنے والے حصے کی دوسری جانب رہتے تھے) ان ہنگامی راستوں کی مدد سے ہی عمارت سے باہر نکلے۔ کشادہ، بغیر کسی رکاوٹ کے اور باقاعدہ طور پر نشان زدہ ہنگامی راستے شاید ہی کراچی کی کسی عمارت میں موجود ہوں اور یہ کبھی بھی کسی سانحے کا سبب بن سکتے ہیں۔

یہ بات تو ناممکن ہی لگتی ہے کہ چیمپلن ٹاورز کے ملبے میں اب کوئی زندہ بچا ہو۔ اس عمارت اور اس کے رہائشیوں کو بچانے کے لیے بہت کچھ کیا جاسکتا تھا لیکن نہیں کیا گیا۔ عمارت کی مرمت میں تاخیر کی گئی۔ دراڑوں اور دیواروں میں سے آنے والی آوازوں کو بھی نظرانداز کیا گیا۔ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کراچی کی فلک بوس عمارتوں خاص طور پر ساحل پر واقع عمارتوں کے رہائشیوں کو اس حوالے سے نظر رکھنی چاہیے۔ اور اپنی جگہ بدلتی ہوئی ریت اور اس پر قائم عمارتوں کے حوالے سے لاتعلق ہوکر نہیں رہنا چاہیے۔


یہ مضمون 30 جون 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Murad Jul 03, 2021 03:20pm
Great blog... timely whistle blowing on suspect contractors cutting corners to make more money from waterfront high rise construction in Karachi. Hope someone learn their lesson!

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024