قومی اسمبلی کا اجلاس: شاہ محمود، بلاول بھٹو کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ
قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے متوقع خطاب سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان گرما گرمی دیکھنے میں آئی اور ایک دوسرے کے بیان پر جواب دیتے ہوئے سخت جملے استعمال کیے گئے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہوا، جہاں خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر حکومت بجٹ پر ووٹنگ میں دھاندلی نہیں کرتی تو دنیا دیکھتی کہ وزیراعظم کے پاس 172 ووٹس بھی نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ ایک روز قبل قومی اسمبلی نے نئے مالی سال کے لیے کثرت رائے سے بجٹ منظور کرلیا تھا، اس دوران وزیراعظم صرف 50 منٹ اجلاس میں موجود رہے تھے اور حکومتی اراکین کی تعداد کافی ہونے کے باعث حتمی ووٹ سے قبل ہی ہال سے واپس چلے گئے تھے۔
بلاول بھٹو نے آج قومی اسمبلی میں کہا کہ بجٹ پر قوم کے 172 نمائندوں نے ووٹ دے کر اعتماد کا اظہار کیا اور جب ووٹ کی عزت کی بات آئے تو اپوزیشن اور حکومت دونوں کی جانب سے عزت ملنی چاہیے، یکطرفہ عزت نہیں ہوسکتی۔
اسپیکر نے ہمارا حق چھینا ہے، بلاول بھٹو زرداری
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر آپ دھاندلی نہیں کرتے تو وزیر اعظم عمران خان کے پاس فنانس ترمیمی بل کی تحریک کے حق میں 172 ووٹ نہیں تھے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر آپ وقت نہ دیتے تو حکومت کے پاس فنانس ترمیمی بل کی تحریک منظور کرنے کے لیے مطلوبہ تعداد نہ ہوتی لیکن 'اسپیکر صاحب! آپ نے ہم سے ہمارا حق چھینا ہے'۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کا بجٹ کثرت رائے سے منظور
انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ 'اپوزیشن کی ترمیم کو سنے بغیر ہی مسترد کردیا جائے اور وہ بھی ایک غیر منتخب شخص مسترد کردے، حکومت کو ترمیم مسترد کرنے کا جواز پیش کرنا چاہیے تھا'۔
بلاول بھٹو نے اسپیکر قومی اسمبلی کو ایک مرتبہ پھر مخاطب کرکے کہا کہ 'آپ نے نہ صرف اس مرتبہ بلکہ مختلف مراحل میں پارلیمنٹ کے قواعد کی خلاف ورزی کی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بجٹ سیشن ہر پاکستانی کے لیے باعث شرمندگی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ رولز کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی اپوزیشن کے چیلنج پر دو مرتبہ وائس آف ووٹ لے سکتا ہے لیکن تیسری مرتبہ تو ووٹوں کی گنتی ہی نہیں کی گئی، یہ جو ووٹ لیے گئے ہیں معاشی تباہی کا باعث بنیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر آپ گنتی کروا دیتے تو اپوزیشن کے ریکارڈ میں آجاتا اور آخری مرتبہ ووٹ کی گنتی کو چیلنج کرنے کے لیے مجھے اٹھنا تھا لیکن بدقسمتی سے آپ چلے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا کام ہی بجٹ کی مذمت کرنا ہے لیکن آپ نے ہمارے حق کا معمولی سا بھی تحفظ نہیں کیا کیونکہ ہم زیادہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ اپنے منصب کے تقدس کو غیر جانبدار رکھیں۔
آئینہ دکھاتے ہیں، دیکھتے نہیں، شاہ محمود کی بلاول پر تنقید
بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے بعد، جس میں قواعد کی بات کی گئی تھی، کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ آج اپوزیشن اراکین نے یکے بعد دیگرے اسپیکر کی ذات کو نشانہ بنایا، ان کے طریقہ کار سے اختلاف ہوسکتا ہے جس پر ان کے چیمبر میں ملاقات کی جاتی ہے اسے تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔
افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے وزیر خارجہ نے بتایا کہ کل اس سلسلے میں اعتماد میں لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے نیشنل سیکیورٹی اور اہم اپوزیشن رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے جہاں انہیں اعتماد میں لیا جائے گا۔
شاہ محمود قریشی نے چیئرمین پی پی پی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کن پارلیمانی روایات کی بات کرتے ہیں، سندھ میں جہاں آپ کی حکومت ہے وہاں قائد حزب اختلاف کو تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا، سندھ کا وزیر خزانہ اختتامی تقریر کیے بغیر رخصت ہوجاتا ہے، کیا سندھ میں اپوزیشن لیڈر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: داخلے کی اجازت نہ ملنے پر تحریک انصاف کے اراکین کا سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا
انہوں نے کہا کہ یہاں ہم سے تقاضے کیے جاتے ہیں، جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے جبکہ سندھ میں قائمہ کمیٹیوں میں اپوزیشن کی نمائندگی ہی نہیں دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ پیش کرنے کے بعد اپوزیشن کو ان کے لیے مختص وقت سے زیادہ بولنے کا موقع دیا گیا جبکہ سندھ میں اپوزیشن کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا جارہا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپ جو یہاں مطالبے کرتے ہیں بہتر ہوتا کہ یہ بتاتے کہ سندھ میں یہ مثال قائم کی گئی، آئینہ دکھاتے ہیں، دیکھتے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے کٹ موشنز پیش کیے جن پر انہیں بات کرنے کا مکمل موقع دیا گیا اور جواب دیا گیا، ووٹ ہوا اب اس میں شکست ہوگئی تو اسے تسلیم کرلیں یہ بھی پارلیمانی روایت ہے۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ چیئرمین پی پی پی کن پارلیمانی روایات کی بات کرتے ہیں؟ روایت تو یہ ہے کہ جب انہیں بات کرنے کا موقع دیا گیا تو بات کا جواب بھی سنیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ غل غپاڑہ شور شرابا کر کے ہمیں دبا دیں گے تو یہ نہیں ہوگا، اس ایوان کے ماحول کو بگاڑنے کی ابتدا اپوزیشن نے کی اگر وہ عمران خان کو اپنی تقریر کرنے دیتے تو یہ نوبت نہیں آتی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عمران خان کو بات نہ کرنے دی گئی تو نہ بلاول اور نہ ہی شہباز شریف بات کریں گے، میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو نہیں چلے گا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر آپ روایات پر عمل اور قواعد کی پیروی کرنا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں لیکن اگر آپ ہمیں دبانا چاہیں گے تو ہم نہیں دبیں گے۔
میں دیکھتا ہوں کہ عمران خان کیسے تقریر کرتے ہیں، بلاول بھٹو
شاہ محمود قریشی کی تقریر کے بعد بلاول بھٹو نے اسپیکر قومی اسمبلی سے درخواست کی کہ انہیں ذاتی وضاحت کا موقع دیا جائے اور اسپیکر سے اجازت ملنے پر انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں میرا نام لیا گیا ہے میں جواب دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ جتنا ہم ملتان کے فاضل رکن کو جانتے ہیں اتنا تو آپ بھی نہیں جانتے، ابھی عمران خان کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ کیا چیز ہیں۔
مزید پڑھیں:اپوزیشن کی غیر سنجیدگی، قومی اسمبلی سے 30 کھرب روپے کی گرانٹس منظور
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ انہوں نے بار بار میرا نام لیا لیکن میں انہیں اتنی اہمیت نہیں دیتا کہ ان کا نام لوں اور اگر وہ وزیراعظم کی تقریر کروانا چاہتے تھے تو انہیں چاہیے تھا کہ احترام کے ساتھ میری بات سنتے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارے پاس لودھراں سے بہت سی خبریں آرہی ہیں، مجھے بات مکمل کرنے دیں آپ اپنا آرڈر لے کر آئیں ورنہ میں یہاں ہوں عمران خان یہاں آئیں اور تقریر کریں میں دیکھتا ہوں کہ وہ کیسے تقریر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اراکین کو قواعد کی پاسداری کرنی پڑے گی ورنہ یہ ایوان نہیں چلے گا، فاضل رکن ملتان نے اس پارٹی پر تنقید کی جس نے انہیں وزیر خارجہ، صدر پنجاب بنایا تھا، آپ خان صاحب کو بتائیں کہ اس شخص کو پہچانیں۔
چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ میں انہیں بچپن سے دیکھ رہا ہوں میں نے انہیں جیے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھا ہے، اپنی وزارت بچانے کے لیے میں نے اس رکن کو 'اگلی باری پھر زرداری' کا نعرہ لگاتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور اب آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ کے وزیراعظم کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ وہ وزیر خارجہ ہیں جو کشمیر کے سودے میں ملوث ہیں، ایسے وقت میں کہ جب افغانستان سے امریکی انخلا ہورہا ہے تو پاکستان کی اسٹریٹجک لوکیشن کی وجہ سے اس کے مرتب ہونے والے اثرات اور ہمارا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے لہٰذا وزیر خارجہ کو یہاں تقریر کرنے کے بجائے وزیراعظم کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کی فون کال کا بندوبست کرنا چاہیے۔
وزیراعظم آئی ایس آئی کو شاہ محمود کا فون ٹیپ کرنے کا کہیں، بلاول بھٹو
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کے لیے بے عزتی اور ہمارے لیے شرمندگی کا باعث ہے کہ ہمارا وزیراعظم اتنی اہمیت ہی نہیں رکھتا کہ اسے ایک فون کال کی جائے، وزیر خارجہ کو اپنی آواز سننے کا اتنا شوق ہے کہ وہ اس جماعت اور حکومت کے لیے خطرہ بننے والے ہیں۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ فاضل رکن نے جنوبی پنجاب کے اتحاد کے ساتھ پی ٹی آئی کی انتخابی مہم چلائی تھی جس میں صوبہ دینے کا وعدہ کیا تھا، وہ سیکریٹریٹ دے کر اعلان کرچکے ہیں وہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیں گے کیوں کہ نہ وہ صوبہ دے سکے اور نہ اپنے علاقے میں چہرہ دکھانے کے قابل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ سے متعلق جو بات ہے وہ سندھ اسمبلی میں ہوگی، جب یہاں کے بندروں نے حملہ کرنے کی کوشش کی تو وہاں کے اسپیکر نے کچھ اراکین پر پابندی لگادی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ وہ دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی: بلاول، شہباز کا ایک ساتھ لائحہ عمل تشکیل دینے کا فیصلہ
ان کا کہنا تھا کہ جو کارٹونز آپ لے کر آئے ہیں انہوں نے تاریخ رقم کی ہے ایک کٹھ پتلی نے ایک کٹ موش پیش نہیں کیا جو ان کی سنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیراعظم کو آئی ایس آئی سے کہنا چاہیے کہ شاہ محمود قریشی کا فون ٹیپ کریں کیوں کہ یہ جب ہمارے وزیر خارجہ تھے تو دنیا میں مہم چلاتے تھے کہ یوسف رضا گیلانی کی جگہ انہیں وزیراعظم بنادیا جائے، اسی وجہ سے انہیں وزارت سے بھی فارغ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ فاضل رکن نے کہا کہ بجٹ اکثریت سے پاس ہوا وہ جھوٹ بول رہے ہیں جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ بجٹ کو تمام قواعد پر عمل کرتے ہوئے منظور کیا گیا۔
چند پرچیاں پکڑا دیتے ہیں، بچہ آٹو پر آن ہوجاتا ہے، شاہ محمود
بلاول بھٹو کی تقریر کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک مرتبہ پھر ایوان میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کے قائد نے کہا کہ یہ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں تو میں بھی انہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ چھوٹے سے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں انہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب کونے میں کھڑے ہو کو جھڑکیاں کھاتے تھے میں ان کو بھی جانتا ہوں ان کے بابا کو بھی جانتا ہو، یہ مجھے کیا جانتے ہوں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ پیپلز پارٹی کی بات کررہے ہیں، آپ بچے کو لکھی ہوئی 2، 4 پرچیاں پکڑا دیتے ہیں اور بچہ آکر آٹو پر آن ہوجاتا ہے، سوئچ آن ہوجاتا ہے آف ہوجاتا ہے ابھی کچھ وقت لگے گا بچے!
مزید پڑھیں:قومی اسمبلی میں شہباز شریف کی تقریر کے دوران شدید ہنگامہ آرائی، شور شرابا
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری ایک تقریر سے بلاول اتنا پریشان ہوجائیں گے، یہ تو ابھی طفلِ مکتب لگتے ہیں ابھی تو بہت سفر طے کرنا ہے، یہ یوسف رضا گیلانی کی بات کررہے ہیں کم از کم انہیں مک مکا سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر تو نہ بنایا ہوتا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ سرکاری ووٹرز ہیں، یوسف رضا گیلانی آج اپوزیشن لیڈر بنے ہوئے ہیں، بلاول اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں انہیں اپنی اصلیت نظر آجائے گی، انہیں اپنا پتا چل جائے کہ کتنے پانی میں ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا بچہ آج بہت پریشان ہوگیا ہے، میں بچے کی پریشانیوں میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتا اور کہتا ہوں کہ چلو جانے دیا، پھر کبھی سہی۔
گزشتہ دو مالی سالوں کے ضمنی مطالباتِ زر کی منظوری
قومی اسمبلی میں رواں مالی سال سمیت گزشتہ دو مالی سالوں کے لیے ایک ہزار 246 ارب روپے کے ضمنی مطالباتِ زر کی منظوری بھی گئی۔
رواں مالی سال 21-2020 کے ضمنی مطالبات زر کے سلسلے میں کابینہ ڈویژن کے 17 ارب 32 کروڑ روپے سے زائد کے سات ضمنی مطالبات زر منظور کر لیے گئے۔
اس کے علاوہ وزارت دفاع کے 36 ارب 23 کروڑ روپے سے زائد کا ایک ضمنی مطالبہ اور وزارت توانائی کے لیے 91 کروڑ روپے سے زائد کے تین ضمنی مطالبات زر کی بھی منظوری دی گئی۔
اسی طرح وزارت تعلیم، قومی ورثہ اور ثقافت کے 8 ارب 72 کروڑ روپے سے زائد کے 8 ضمنی مطالبات زر منظور کیے گئے جبکہ وزارت خزانہ کے 137 ارب 57 کروڑ روپے سے زائد کے پانچ ضمنی مطالبات زر کو منظور کیا گیا۔
وزارت خارجہ کے 50 کروڑ 92 لاکھ روپے کا ایک ضمنی مطالبہ زر منظور کیا گیا، وزارت ہاؤسنگ وتعمیرات کے 13 ارب 88 کروڑ روپے سے زائد کے ضمنی مطالبات زر منظور کیے گئے جبکہ وزارت صنعت و پیداوار کے 3 ارب 75 کروڑ روپے سے زائد کے دو ضمنی مطالبات زر منظور کر لیے گئے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کا 60 کروڑ روپے سے زائد کا ایک ضمنی مطالبہ زر، وزارت داخلہ کے ایک ارب 36 کروڑ روپے سے زائد کے تین ضمنی مطالبات زر جبکہ وزارت قانون کے ایک ارب 28 کروڑ روپے سے زائد کے تین ضمنی مطالبات زر کی منظوری دی گئی جس میں قومی احتساب بیورو کا 43 کروڑ روپے سے زائد کا مطالبہ زر بھی شامل ہے۔
وزارت بحری امور کا 96 لاکھ روپے سے زائد کا ایک مطالبہ زر، وزارت انسداد منشیات کا 57 لاکھ روپے سے زائد کا ایک مطالبہ زر، وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کا 15 ارب 65 کروڑ روپے سے زائد کا ایک مطالبہ جبکہ وزارت صحت کے 25 ارب 81 کروڑ روپے سے زائد کے تین ضمنی مطالبات زر منظور کیے گئے۔
اس سلسلے میں نجکاری ڈویژن کے چار کروڑ 91 لاکھ روپے سے زائد کا ایک مطالبہ زر، وزارت مذہبی امور کا ایک ارب روپے کا ایک مطالبہ زر منظور، وزارت منصوبہ بندی کا 16 ارب 62 کروڑ روپے سے زائد کا ایک ضمنی مطالبہ اور وزارت ریلوے کا چھ کروڑ 10 لاکھ روپے کا ایک ضمنی مطالبہ زر منظور کیا گیا۔
مالی سال 20-2019 کے لیے وزیراعظم ہاؤس کا 8 ارب 44 کروڑ 77 لاکھ روپے کا ضمنی مطالبہ، اٹامک انرجی کے لیے ایک ارب 30 کروڑ روپے سے زائد کا مطالبہ زر اور قومی احتساب بیورو کے لیے چار ارب روپے سے زائد کا ضمنی مطالبہ زر منظور کر لیا گیا۔
مالی سال 20-2019 کے لیے مجموعی طور پر 590 ارب 27 کروڑ روپے سے زائد کے ضمنی مطالبات زر منظور کر لیے گئے۔