• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

چیف جسٹس کے خلاف بات کرتے وقت اپنے حواس میں نہیں تھا، رہنما پیپلز پارٹی

شائع June 29, 2021
پیپلز پارٹی کراچی چیپٹر کے مسعود الرحمٰن عباسی چیف جسٹس کے خلاف توہین آمیز ریمارکس پر توہین عدالت کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
پیپلز پارٹی کراچی چیپٹر کے مسعود الرحمٰن عباسی چیف جسٹس کے خلاف توہین آمیز ریمارکس پر توہین عدالت کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ایک رہنما نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ جب رواں ماہ کے آغاز میں انہوں نے کراچی میں چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کی تھی تو وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسعود الرحمٰن عباسی، جو پیپلز پارٹی کے کراچی چیپٹر کے عہدیدار ہیں، چیف جسٹس گلزار احمد کے خلاف توہین آمیز ریمارکس پر توہین عدالت کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

تاہم جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار ججز پر مشتمل بینچ نے ملزم سے تحریری طور پر اپنے مؤقف کی وضاحت کرنے کو کہا کیوں کہ زبانی بیان سے معاملے پر فیصلہ کرنے میں کوئی مدد حاصل نہیں ہوگی۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ میں وزیر اعظم کیخلاف 'توہین عدالت' کی درخواست سماعت کیلئے منظور

جسٹس اعجاز الاحسن نے حیرت کا اظہار کیا کہ جب ملزم نے بیان دیا تو کیا وہ اپنے ہوش میں تھا۔

مسعود الرحمٰن عباسی نے جواب دیا کہ 'نہیں جناب، میں اپنے ہوش میں نہیں تھا'۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ملزم سے اپنے وکیل سے مشورے کے بعد تحریری جواب دینے کو کہا۔

بینچ نے استفسار کیا کہ کیا ملزم کو اعتماد ہے کہ ویڈیو کلپ میں، جس میں اسے چیف جسٹس کے خلاف توہین آمیز تبصرے کرتے دیکھا گیا، اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی تھی۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے سماعت کے بعد میڈیا کے سامنے اعتراف کیا کہ انہوں نے غلطی کی ہے اور وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اور 'مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے کیونکہ میری پارٹی نے میری بنیادی رکنیت ختم کردی ہے'۔

دوران سماعت جب بینچ نے استفسار کیا کہ کیا ملزم کمرہ عدالت میں موجود ہے تو سندھ پولیس کے ایک سینئر عہدیدار نے مسعود الرحمٰن عباسی کو روسٹرم پر پیش کیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ میں توڑ پھوڑ، وکلا کےخلاف توہین عدالت کا کیس سماعت کیلئے مقرر

22 جون کو آخری سماعت میں سپریم کورٹ نے سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) کو حکم دیا تھا کہ وہ توہین عدالت نوٹس کیس میں مسعود الرحمٰن عباسی کی پیر کے روز عدالت میں حاضری کو یقینی بنائیں۔

جواب سننے کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے ملزم کو سمجھایا کہ عدالت فیصلہ کرے گی کہ پراسیکیوٹر کا تقرر کرکے ان کے خلاف ثبوت ریکارڈ کرنے کے بعد مزید کارروائی کی جانی چاہیے یا نہیں، لیکن واضح کیا کہ ان کا مقصد جلد از جلد سماعت ختم کرنا ہے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ وہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو نوٹس جاری کرے کیونکہ یہ ان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی اے نے سوشل میڈیا سے مواد ہٹا دیا ہے تو پی ٹی اے کے ڈائریکٹر جنرل (قانون) سجاد اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ان کا ادارہ اس معاملے پر کارروائی، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی انکوائری مکمل ہونے کے بعد کرے گا۔

سجاد اعوان نے عدالت کو بتایا کہ جلد بازی میں سوشل میڈیا سے مواد ہٹانا تفتیش کی رفتار کو روک سکتا ہے۔

عدالت نے پی ٹی اے سے کہا کہ وہ ایف آئی اے سے رابطہ کرے اور اٹارنی جنرل سے مشاورت کے بعد ویڈیو کو سوشل میڈیا سے ہٹادیں۔

سپریم کورٹ نے نوٹ کیا کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے اسے نوٹیفائی کیا تھا کہ الیکٹرانک میڈیا نے کبھی بھی ملزم کی ویڈیو کلپ نشر نہیں کی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ ویڈیوکلپ نشر نہ ہو۔

انہوں نے اے جی پی سے کہا کہ انہوں نے اب تک جو شواہد جمع کیے ہیں وہ 'قانونی شکل' میں عدالت میں پیش کریں۔

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ثنااللہ عباسی نے بینچ کو آگاہ کیا کہ ایف آئی اے نے عبوری رپورٹ عدالت میں پیش کی ہے لیکن ان سے کہا گیا کہ وہ پی ٹی اے سے رابطہ کریں۔

مزید پڑھیں: 'توہین عدالت' کی درخواست: وزیراعظم کی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ پیش کرنے کا حکم

جسٹس عمر عطا بندیال نے ثنااللہ عباسی سے کہا کہ وہ عدالت میں پیش ہونے کے بجائے آئندہ سماعتوں میں ان کی نمائندگی کرنے کے لیے کسی افسر کو مقرر کریں۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو قانونی مواد اکٹھا کرنے میں حکام کی مدد کرنے کی ہدایت کی اور کیس کی سماعت کو جمعہ تک ملتوی کردی۔

ایف آئی اے رپورٹ

ایف آئی اے نے اپنی عبوری رپورٹ میں کہا کہ جس آڈیو اور ویڈیو کلپ میں مسعود الرحمٰن کو غیر مہذب گفتگو کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا وہ مصدقہ اور غیر ایڈیٹڈ ہے، یہ ابھی بھی سوشل میڈیا ویب سائٹس پر گردش میں ہے۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے اپنے سائبر کرائم ونگ کی ڈیجیٹل فرانزک لیب سے ویڈیو کلپ کی فرانزک تجزیہ کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ اس کی تصدیق کی جاسکے۔

لیبارٹری نے جواب دیا کہ مسعود الرحمٰن عباسی کی تقریر مختلف سوشل میڈیا ویب سائٹس پر دستیاب ہے۔

ویڈیو کا دورانیہ دو منٹ 15 سیکنڈ ہے، اسے سب سے پہلے فیس بک پر اپ لوڈ کیا گیا تھا اور بعد میں مختلف لوگوں نے یوٹیوب سمیت دیگر ویب سائٹ پر پوسٹ کیا تھا۔

رپورٹ میں وضاحت کی گئی کہ جن فیس بک اکاؤنٹس پر ویڈیو کلپ اپ لوڈ کی گئی تھیں اسے محفوظ کرلیا گیا ہے اور عدالت سے احکامات حاصل کرنے کے بعد ڈیٹا کی درخواست کی جائے گی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024