طالبعلم سے بدفعلی: مفتی عزیز الرحمٰن کا اعتراف جرم سے انکار، جیل منتقل
لاہور: عدالت نے مدرسے میں طالب علم سے بدفعلی کے کیس میں گرفتار مفتی عزیزالرحمٰن نے اعتراف جرم سے انکار کردیا ہے جس کے بعد انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
کینٹ کچہری میں جوڈیشل مجسٹریٹ رانا راشد علی نے کیس کی سماعت کی۔
مزید پڑھیں: مفتی عزیزالرحمٰن کا شاگرد سے بدفعلی کا اعتراف، شرمندگی کا اظہار
عدالت کے استفسار پر ملزم مفتی عزیز الرحمٰن نے کہا کہ 'میں صرف اپنا بیان قلم بند کروانا چاہتا ہوں'۔
اعتراف جرم سے انکار
پولیس نے ملزم کا دفعہ 164 کے تحت اعترافی بیان ریکارڈ کرانے کے لیےعدالت پیش کیا لیکن ملزم نے کمرہ عدالت میں اعتراف جرم سے انکار کردیا۔
مفتی عزیز الرحمٰن نے کہا کہ پولیس زبردستی دباؤ میں لا کر اعترافی بیان لینا چاہتی ہے اور میرے خلاف مدرسے کی انتظامیہ نے سازش کی ہے۔
بعدازاں ملزم نے جوڈیشل مجسٹریٹ شاہد کھوکھر کے روبرو اپنا بیان دیا۔
علاوہ ازیں تھانہ شمالی چھاؤنی پولیس نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ملزم سے تفتیش مکمل کرلی ہے۔
پولیس نے کہا کہ ملزم سے تفتیش مکمل ہو چکی ہے اور مزید جسمانی ریمانڈ نہیں چاہیے۔
جس پر عدالت نے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا اور آئندہ سماعت پر پولیس سے مقدمے کے چالان کی رپورٹ طلب کر لی۔
خیال رہے کہ پولیس نے مفتی عزیز الرحمٰن کو منہ پر کپڑا ڈال کر عدالت میں پیش کیا تھا۔
مزید پڑھیں: طالبعلم کے ساتھ مبینہ بدفعلی: مفتی عزیز الرحمٰن دو بیٹوں سمیت گرفتار
ملزم کی گرفتاری
خیال رہے کہ اپنے شاگرد سے بدفعلی کے ملزم کو پولیس نے 20 جون کو میانوالی سے دو بیٹوں سمیت گرفتار کیا تھا اور انہیں لاہور منتقل کردیا گیا ہے۔
سی آئی اے ماڈل ٹاؤن کے ڈی ایس پی حسنین حیدر کی سربراہی میں ٹیم نے میانوالی میں چھاپہ مار کر مفتی عزیز الرحمٰن کو گرفتار کیا تھا۔
میانوالی سے مرکزی ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد پولیس نے مفتی عزیز الرحمٰن کے ایک بیٹے عتیق الرحمٰن کو کاہنہ کے ایک مدرسے جبکہ دوسرے بیٹے کو لکی مروت سے گرفتار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: طالبعلم کے ساتھ مبینہ بدفعلی: مفتی عزیز الرحمٰن کے خلاف مقدمہ درج
کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی نے دعویٰ کیا تھا کہ مفتی عزیزالرحمٰن کے دو بیٹوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، جو مدرسے میں اپنے شاگردوں سے بدفعلی میں ملوث تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان الطاف الرحمٰن اور عتیق الرحمٰن متاثرین کو ان کے والد مفتی عزیزالرحمٰن کے خلاف مقدمے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیوں میں بھی ملوث ہیں۔
انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس انعام غنی نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ 'ہم مجرم کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں'۔
انہوں نے بتایا تھا کہ پولیس اس معاملے کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھے گی، ملزم سے تفتیش کرے گی، سائنسی اور پروفیشنل تحقیقات کر کے مقدمہ چلایا جائے گا اور ملزم کو عدالت سے سزا دلوائی جائے گی۔
آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ 'ہم چاہتے ہیں ہمارے بچے ان استحصال کرنے والوں سے اور مستقبل کے لیے ہمارا معاشرہ محفوظ رہے'۔
بعد ازاں لاہور کے مدرسے میں طالب علم سے بدفعلی کے کیس میں گرفتار مفتی عزیزالرحمٰن نے تفتیش کے دوران اعتراف جرم کرتے ہوئے شرمندگی کا اظہار کیا تھا۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) انوسٹی گیشن شارق جمال خان نے بتایا تھا کہ ملزم نے اعتراف کیا کہ چند روز قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو ان کی ہے اورچھپ کر بنائی گئی ہے۔
مفتی عزیزالرحمٰن نے تفتیشی افسر کو بتایا تھا کہ بیٹوں نے طالب علم کو دھمکایا اور اسے کسی سے بات کرنے سے روکا لیکن اس نے منع کرنے کے باوجود ویڈیو وائرل کردی۔