نئی دنیا میں خود کو کیسے متعارف کروائیں؟
کورونا وائرس کی وجہ سے عائد لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیوں میں آہستہ آہستہ نرمی آتی جارہی ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب ہم میں سے اکثر افراد یہ سوچ کر پریشان ہورہے ہیں کہ جب یہ پابندیاں مکمل طور پر اٹھ جائیں گی تو کیا ہوگا؟ یہی نہیں بلکہ اپنی سماجی زندگی کو بھی دوبارہ شروع کرنا ایک مشکل کام نظر آرہا ہے۔
اس وبا کی ابتدا میں جو پابندیاں عارضی طور پر لگائی گئی تھیں وہ اب کئی حوالوں سے مستقل معلوم ہوتی ہیں۔ ہم گھروں میں بند ضرور تھے لیکن زندگی رواں دواں تھی۔ اس عرصے میں لوگوں نے اپنی سالگرہ منائی، شادیاں کیں، کئی طلبہ گریجویٹ ہوئے تو کئی افراد نے گھر سے ہی نئی نوکریوں کا آغاز کیا۔
ہم نے ایک جانب اس وبا کے ہاتھوں اپنے عزیز و اقارب کو کھویا تو دوسری جانب ننھے مہمانوں کو بھی خوش آمدید کہا۔ اب جبکہ ہم دوبارہ سیر و تفریح کرنے اور ریسٹورنٹس میں کھانا کھانے کےلیے بے تاب ہیں تو لیکن ساتھ ساتھ ایسا بھی لگتا ہے کہ اپنے عزیزوں کے ساتھ پہلے کی طرح ملنا جلنا شاید آسان نہیں ہوگا۔
وبا کے دوران 19 سالہ فواد (فرضی نام) کی یونیورسٹی کی تعلیم کا آن لائن آغاز ہوا۔ اس نے بلوغت اور آزادی کی جانب سفر کا آغاز اپنے کمرے سے ہی کیا۔ فواد کا کہنا ہے کہ ’سماجی دُوری کے دوران میں لوگوں کے ساتھ کورونا سے پہلے جیسے تعلقات برقرار نہیں رکھ سکا۔ لوگوں سے بالمشافہ ملاقات نہ کرنے سے میری لوگوں سے ملنے اور گھلنے والی صلاحیت پر اثر پڑا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیا میں پہلے کی طرح لوگوں کے ساتھ گھل مل سکوں گا یا نہیں‘۔
گزشتہ سال کے دوران لوگوں کی عادتوں اور سماجی ترجیحات میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں یہ اس کی صرف ایک مثال ہے۔
عزّہ کے لیے اس وبا کا مطلب تھا کہ اسے کالج، انٹرن شپ اور دوستوں کے ساتھ گھومے پھرے بغیر بھی متحرک رہنا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں لاک ڈاؤن کے دوران خود کو فعال نہیں رکھ سکی تو میں نے اس حوالے سے مدد لینے کا فیصلہ کیا اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ میں اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹیوٹی ڈس آرڈر (اے ڈی ایچ ڈی) کا شکار ہوں۔ میں خود کو نیورو ٹیپیکل انداز میں نہیں دیکھ سکتی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں نے ایک سال کے دوران 5 سالوں کا عرصہ گزار لیا ہے‘۔
عزّہ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے خود کو اپنے خاندان میں دوبارہ متعارف کروایا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں باہمی تعلقات کی بدلتی ہوئی حرکیات سے پریشان تھی۔ میں اس حوالے سے بہت حساس ہوں کہ کوئی مجھ پر ترس کھائے لیکن میرے کچھ دوستوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے دوسروں سے مختلف سمجھنے کے بجائے مجھے مزید بہتر طریقے سے جاننے کی کوشش کی‘۔
سماجی فاصلے کا عرصہ جہاں کچھ لوگوں کے لیے غم، تناؤ اور محرومی کے احساس کا مجموعہ تھا وہیں دیگر کے پاس کچھ دیر کے لیے ٹھہرنے اور وقفہ لینے کی سہولت موجود تھی۔ تاہم یہ تجربات انفرادی تھے اور ایک دوسرے سے بہت مختلف بھی۔
دپتی سولانکی برطانیہ میں مقیم گریف اسپیشلسٹ اور ٹرانسفارمیشنل کوچ ہیں۔ وہ گزشتہ سال کو بھلا کر آگے بڑھنے کے سفر اور اپنے عزیزوں کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے کے حوالے کچھ امور پر روشنی ڈالتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ وبا اپنے ساتھ بڑی تبدیلی لے کر آئی ہے اور کسی بھی تبدیلی کے دوران چاہے وہ مثبت ہو یا منفی لوگوں میں محرومی اور غم کے احساس کا امکان موجود ہوتا ہے۔ جب برتاؤ کا ایک جانا پہچانا معمول متاثر ہوتا ہے تو اس احساس میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے یوں لاک ڈاؤن کے اثرات سے نکلنے کا عمل بھی متاثر ہوسکتا ہے‘۔
دپتی نے خود کو دنیا کے سامنے دوبارہ متعارف کروانے کے کچھ طریقے بھی بتائے ہیں جو اس عمل کو ہر ممکن حد تک براہِ راست، درست اور آسان بنادیتے ہیں۔ ان کے مطابق پہلا مرحلہ تو اپنے احساسات کو تسلیم کرنا، ان کے بارے میں اگر کوئی شرمندگی ہو تو اسے دُور کرنا اور یہ جاننا ہے کہ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ اپنے جذبات اور اضطراب کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔
دپتی سولانکی کا کہنا ہے کہ ’ابتدا میں لوگوں سے انفرادی طور پر ملاقات کریں تاکہ ایک ساتھ زیادہ لوگوں سے ملاقات کے دباؤ کو کم کیا جاسکے۔ اگر کسی کام کی اجازت موجود ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے فوری طور پر انجام دیا جائے۔ اپنے عزیزوں سے دوبارہ ملنے کے لیے جتنا وقت چاہیے اتنا وقت لیجیے اور کھل کر اور دیانت داری سے گفتگو کیجیے۔ گفتگو کا ایک موضوع یہ بھی ہوسکتا ہے آپ کے لیے لاک ڈاؤن کا کیا مطلب تھا، آپ نے کن چیزوں کا تجربہ کیا اور کن چیزوں کو یاد کیا۔ ایسی مثبت باتیں جو آپ کو تلخ محسوس ہوں انہیں چھوڑ کر جذباتی سچائی کو اختیار کریں‘۔
معاملات کو جہاں چھوڑا تھا وہیں سے آگے بڑھانے کی امید کو ترک کرنا بھی ضروری ہے اسی صورت میں قدرتی طور پر معاشرے سے دوبارہ جڑ سکیں گے۔
انصر (فرضی نام) ایک 52 سالہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ لاک ڈاؤن نے ان پر کئی چیزیں منکشف کیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے پہلے وبا سے میرا تعارف صرف کتابوں اور فلموں کے ذریعے ہی تھا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں کسی ایسی وبا کا تجربہ کروں گا جو 7 ارب انسانوں کو متاثر کر رہی ہوگی۔ بدقسمتی سے میرے 2 عزیزوں کو اس وبا کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس وبا نے ہمیں احساس دلایا ہے کہ ہماری زندگیوں کو کتنے خطرات لاحق ہیں اور غیر یقینی کی وجہ سے پیدا ہونے والا تناؤ کس قدر جان لیوا ہوتا ہے۔ میں نے اس وقت کا استعمال اپنے بچوں کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے اور زندگی کے بارے میں غور و فکر کرنے میں گزارا کیونکہ مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کرنا تو لاحاصل نظر آرہا تھا‘۔
جن لوگوں نے لاک ڈاؤن کے دوران اپنے عزیزوں کو کھویا ہے انہیں شاید شدید اضطراب کا سامنا رہے خاص طور پر انہیں جنہیں اس غم سے اکیلے ہی نمٹنا پڑا ہو۔
20 سالہ صبا (فرضی نام) یونیورسٹی کی طالبہ اور ایک گرافک ڈیزائینر ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران ان کی دادی کورونا کا شکار ہوکر انتقال کرگئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’گھر میں رہ کر اکیلے ہی مغموم رہنا ایک بات ہے لیکن میرے لیے کسی ایسے شخص کے بغیر اس ’عمومی‘ زندگی کی جانب لوٹنا بہت مشکل ہے جو میرے لیے بہت ہی اہم تھا‘۔
ماضی کے طرزِ عمل پر واپسی کی خوشی منانے کی ایک وجہ اپنی نوکری، روزگار اور اپنے سپورٹ سسٹمز تک رسائی ہوسکتی ہے۔ صبا کہتی ہیں کہ ’اس صورتحال کے طویل مدتی ذہنی اور معاشی اثرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے‘۔
سعدیہ (فرضی نام) ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد بھی میرا لوگوں سے ملنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ کورونا ابھی موجود ہے۔ میرے لیے ورک فرام ہوم کی سہولت کسی نعمت سے کم نہیں تھی کیونکہ اس طرح میں کام کے ساتھ ساتھ اپنے بچے کی دیکھ بھال بھی کرسکتی تھی۔ لوگوں کو اب بھی ایس او پیز کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوا ہے اور اب جبکہ ان کے پاس کہیں زیادہ وقت ہے تو وہ ٹائم منیجمنٹ بھی بھول چکے ہیں‘۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے عزیز و اقارب میں تقریباً تمام افراد ہی ویکسین لگوا چکے ہیں لیکن وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ اب بھی موجود ہے اور ابھی بچوں کے لیے کوئی ویکسین متعارف نہیں ہوئی۔ میں اپنے بچے کو کسی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی۔ اگر میرا بچہ نہ ہوتا تو شاید صورتحال مختلف ہوتی لیکن اب تو اسے گھومانے لے جانے کے خیال سے ہی مجھے خوف آنے لگتا ہے‘۔
سعدیہ مزید کہتی ہیں کہ ’میں امید ہی کرسکتی ہوں کہ میرے اس رویے سے میرے بچے کی سماج میں گھلنے ملنے سے متعلق صلاحیت ختم نہیں ہوگی۔ شکر ہے کہ اس وبا میں زندگی گزارنے کے باوجود وہ جن چند لوگوں سے ملا ہے ان کے ساتھ اچھے انداز میں گھل مل گیا ہے تاہم میں زیادہ لوگوں سے ملنے کے حوالے سے ابھی مطمئن نہیں ہوں‘۔
دپتی سولانکی کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ خود کو ماضی کی نسبت مختلف محسوس کرتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ آپ کے ساتھ یہ دنیا بھی تبدیل ہوچکی ہے‘۔ نئے ’نارمل‘ کی تلاش کا مطلب یہ ہے کہ ماضی میں آپ جن لوگوں کو جانتے تھے وہ آپ کو اور آپ ان کو اس طرح نہ سمجھ سکیں جیسا کہ ماضی میں سمجھتے تھے۔
کوئی شخص اپنے تجربات سے کس طرح ابھرتا ہے اس کا دار و مدار اسی پر ہے۔ ہم صرف امید ہی کرسکتے ہیں کہ یہ نئی دنیا پہلے سے زیادہ مہربان، دوسروں کو قبول کرنے والی اور روادار ہوگی۔
یہ مضمون 27 جون 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں