وزیر اعلیٰ بلوچستان کے بجٹ سے متعلق 'متنازع' بیان پر نئی بحث چھڑ گئی
بلوچستان میں صوبائی بجٹ کے خلاف اپوزیشن کے دھرنے سے متعلق ایک سوال پر وزیراعلیٰ جام کمال کے 'متنازع' جواب سے سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی کہ 'اگر بجٹ صوبائی کابینہ کی نگرانی میں تیار نہیں ہوا تو صوبے کے عوام کو بہت ہی غلط پیغام گیا ہے'۔
گزشتہ روز وزیر اعلیٰ جام کمال نے میڈیا سے گفتگو کی جس میں انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'ہماری کابینہ نے بھی بجٹ نہیں دیکھا تھا، ہماری کابینہ نے 18 جون کو 3بجے بجٹ دیکھا اور ساڑھے چار پانچ بجے ہم اس کو ادھر ہی (اسمبلی) لے آئے۔
مزیدپڑھیں: بلوچستان اسمبلی کے باہر ہنگامہ آرائی
انہوں نے خود ہی سوال اٹھایا کہ 'اگر کوئی کہتا ہے کہ بجٹ غلط تھا تو اگر صوبائی حکومت، کابینہ اور اراکین صوبائی اسمبلی کو بھی بجٹ کا نہیں معلوم تھا لیکن اپوزیشن کو معلوم تھا کہ بجٹ میں کیا ہے، تو یہ غلط اعتراض تھا'۔
جام کمال نے اپوزیشن کو مخاطب کرکے کہا کہ 'بجٹ پیش ہونے کے بعد اپوزیشن جماعتیں اس کو پڑھ لیتی تو ہنگامہ آرائی یا احتجاج کرتی تو بات سمجھ میں آتی'۔
علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ اراکین اپوزیشن بجٹ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے احاطے میں موجود تھے اگر وہ میرے گھر یا سیکریٹریٹ کے سامنے ہوتے تو میں، خود ان سے ملاقات کرتا یا وفد بھیجتا۔
جام کمال کی بجٹ سے متعلق لاعلمی پر سوشل میڈیا میں نئی بحث چھڑ چکی ہے جس میں تجزیہ کاروں اور سینئر صحافیوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
رکن پنجاب اسمبلی اور مسلم لیگ (ن) کی رہنما حنا پروز بٹ نے بجٹ سے متعلق جام کمال کے بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'آخر ہمارے ملک میں ہو کیا رہا ہے؟'
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان اسمبلی ہنگامہ آرائی کیس، پولیس کا گرفتاریوں سے انکار
انہوں نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ 'وزیراعلی بلوچستان جام کمال کا کہنا کہ میری کابینہ نے بھی بجٹ نہیں دیکھا تھا، بہت تشویشناک بات ہے'۔
حنا پروز بٹ نے سوال اٹھایا کہ آخر ہمارے ملک میں ہو کیا رہا ہے؟ کب تک پاکستان کے ساتھ ایسا مذاق ہوتا رہے گا؟
اس حوالے سے سینئر صحافی حامد نے جام کمال کے بیان کو خود ان کے خلاف ایک چارج شیٹ قرار دیا۔
انہوں نے ٹوئٹر پر کہا کہ وزیر اعلیٰ نے تو کمال ہی کردیا، ان کا یہ بیان کسی اور کے نہیں خود ان کے اپنے خلاف ایک چارج شیٹ ہے۔
حامد میر نے کہا کہ 'وہ کہہ رہے ہیں کہ اس مرتبہ بجٹ ان کی کابینہ نے نہیں بنایا بلکہ کہیں اور سے بنا بنایا بجٹ ان کے پاس بھجوایا گیا تھا یعنی انہوں نے بجٹ کہیں سے ٹھیکے پر بنوایا'۔
صحافی شاہد عباسی نے کہا کہ وزیراعلی بلوچستان جو بھی چاہ رہے تھے، ان کے انداز بیان اور لفظوں میں موجود ٹوئسٹنگ نے اس کلپ کو ایسے رنگ پہنائے ہیں جو شاید چاہ کر بھی درست کرنا ممکن نہ ہو سکیں۔
ایک ٹوئٹر صارف نے کہا کہ ' بلوچستان حکومت کو بھی بجٹ کے خلاف اپوزیشن کے ساتھ دھرنا دینا تھا'۔
مہر فیصل نامی ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ ہولڈر نے سوال اٹھایا کہ کابینہ نے بجٹ نہیں دیکھا ہی نہیں تو پھر بجٹ بنایا کس نے؟
خیال رہے کہ بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے اپوزیشن کے شدید احتجاج کے دوران آئندہ مالی سال 22-2021 کا بجٹ سیشن 2 گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا تھا۔
بلوچستان اسمبلی میں موجود اپوزیشن جماعتوں کا احتجاجی کیمپ کئی سے قائم تھا اور ان کا مطالبہ تھا کہ ان کے حلقوں کو فنڈز فراہم کیے جائیں۔
اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے اب صوبائی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے سے قبل اسمبلی کے گیٹ کو باہر سے تالے لگا دیے اور رکاؤٹیں کھڑی کر دی تھیں۔
خیال رہے کہ بلوچستان اسمبلی کی متحدہ اپوزیشن میں جمعیت علمائے اسلام (ف)، بی این پی (مینگل)، پشتونخوا میپ اور آزاد اراکین شامل ہیں اور بجٹ میں اپوزیشن اراکین کے حلقوں کو مبینہ طور پر نظر انداز کرنے کے خلاف ان کا احتجاجی دھرنا 4 روز سے جاری تھا۔
اس سے قبل بلوچستان میں اپوزیشن جماعتوں نے مجوزہ ترقیاتی منصوبے صوبائی بجٹ کا حصہ نہ بنانے پر اسے حکومتی نااہلی قرار دیتے ہوئے کوئٹہ، چاغی، واشک، خاران اور نوشکی سمیت بلوچستان کے متعدد شہروں اور قصبوں سے گزرنے والی قومی شاہراہوں کو بلاک کردیا تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں