ملتان واقعی سلطان بن گئے!
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے تاریخ کے یادگار ترین لمحات میں سے ایک وہ ہے جب 2017ء میں پہلی بار پی ایس ایل کا کوئی مقابلہ پاک سرزمین پر کھیلا گیا تھا۔ یہ دوسرے سیزن کا فائنل تھا کہ جس کے لیے لاہور کا انتخاب کیا گیا تھا۔
5 مارچ 2017ء کو قذافی اسٹیڈیم میں پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا ایک بے جوڑ مقابلہ دیکھنے کے لیے ہزاروں تماشائی موجود تھے۔ بے جوڑ اس لیے کہ پشاور زلمی تو اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ موجود تھا کیونکہ اس کے تمام غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آمد پر قائل ہوگئے تھے، لیکن کوئٹہ کے تمام انٹرنیشنل پلیئرز نے پاکستان آنے سے انکار کردیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کوئٹہ کو ایک دوسرے درجے کی ٹیم کے ساتھ میدان میں اترنا پڑا اور پشاور باآسانی پی ایس ایل چمپیئن بن گیا۔
پھر تو پشاور کو کوئٹہ کی ایسی ’آہ‘ لگی کہ کئی مرتبہ فائنل تک پہنچنے کے باوجود بھی زلمی پھر کبھی پی ایس ایل ٹرافی نہیں اٹھا سکے، ایک نہیں، 2 نہیں بلکہ 3 بار فائنل میں پہنچ کر بھی ان کے نصیب میں شکست ہی آئی ہے اور پچھلی 2 بار کی طرح 2021ء میں بھی انہیں بدترین شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ دوسری جانب ملتان سلطانز نے اپنے پہلے ہی فائنل کو پہلے ٹائٹل میں بدل کر ایک تاریخ رقم کر دی ہے۔
بلاشبہ پشاور زلمی پاکستان سپر لیگ کی تاریخ میں سب سے زیادہ میچ جیتنے والی ٹیم ہے، اس نے سب سے زیادہ 4 مرتبہ فائنل بھی کھیلا ہے اور شائقین میں بھی بہت مقبول ہے، لیکن نجانے انہیں فائنل میں پہنچ کر کیا ہو جاتا ہے۔
ابوظہبی میں ہونے والے فائنل میں سلطانوں کے خلاف ان کی ایک نہیں چلی، بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ زلمی نے اپنے ہاتھوں سے میچ گنوایا۔ ٹاس جیت کر سلطانز کو بیٹنگ کی دعوت دی اور 10 اوورز میں انہیں 73 رنز تک محدود بھی رکھا۔ لیکن یہاں ایک فیصلہ کن مرحلہ آگیا۔
مین اِن فارم صہیب مقصود نے محمد عمران کی گیند پر ایک شاٹ کھیلنے کی کوشش کی تو گیند ہوا میں اچھل گئی اور پھر ایک آسان کیچ، جو میچ کا رُخ بدل دیتا، نہ پکڑا جا سکا۔ پشاور کو ایک سنہری موقع ملا لیکن انہوں نے اسے گنوا دیا اور یہی وہ لمحہ تھا جب میچ پشاور کی گرفت سے نکلنے لگا۔ اس وقت صہیب مقصود صرف 6 رنز پر کھیل رہے تھے۔
ایک ایسا بیٹسمین جو گزشتہ 5 میچوں کے دوران 61، 60 اور 59 رنز کی اننگز کھیل چکا ہو، اس کا کیچ چھوڑنا کسی ’جرم‘ سے کم نہیں تھا اور اس کی پشاور کو بہت کڑی سزا ملی۔ صہیب نے 35 گیندوں پر 6 چوکوں اور 3 چھکوں کی مدد سے ناٹ آؤٹ 65 رنز بنائے اور پشاور کے زخموں پر آخر تک نمک چھڑکتے رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسرے اینڈ سے رائلی روسو بھی اِس اہم ترین مقابلے میں چل پڑے۔ ابوظہبی میں ہونے والے پی ایس ایل کے مرحلے میں وہ 6 میچوں میں صرف 2 اننگز میں ہی دہرے ہندسے تک پہنچے تھے، اس لیے فائنل میں روسو پر ایک بڑی اننگ ادھار تھی اور یہ قرضہ انہوں نے 21 گیندوں پر 50 رنز بنا کر بخوبی ادا کردیا۔ ملتان نے اپنے حصے کے 20 اوورز میں 206 رنز بنائے جو پشاور کیا کسی بھی ٹیم کے لیے کافی سے زیادہ رنز تھے۔
207 رنز کے ہدف کے تعاقب کے لیے جس حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت تھی، ابتدا ہی سے پشاور میں اس کا فقدان نظر آیا۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ ان کے سب سے خطرناک بلے باز حضرت اللہ زازئی کو ابتدائی 5 اوورز میں صرف 3 گیندیں کھیلنے کو ملیں۔ جی ہاں! ابتدائی 30 میں سے 27 گیندیں کامران اکمل کھیل گئے جن پر صرف 36 رنز بن پائے۔ یوں وہ دباؤ جو ابتدا میں حریف پر پڑنا چاہیے تھا، وہ اپنے ہی اوپر آگیا۔
گزشتہ 4 میچوں میں 63، 77 اور 66 رنز کی کمال اننگز کھیلنے والے حضرت اللہ چھٹے اوور میں ایک چھکا لگانے کے بعد کیچ دے بیٹھے اور کچھ ہی دیر میں خود کامران بھی اپنے اسکور میں ایک رن کا اضافہ کیے بغیر لوٹ آئے اور یوں کچھ دیر کے لیے رنز بننا رک گئے۔
گوکہ ابتدا ہی میں اندازہ ہوگیا تھا کہ کامیابی ملتان کو نصیب ہوگی، لیکن پھر بھی پشاور کو چند مواقع ضرور ملے۔ مثلاً 12ویں اوور میں شعیب ملک جس گیند پر آؤٹ ہوئے وہ نوبال قرار پائی۔ اس کے بعد 3 اوورز میں پشاور نے 55 رنز لوٹے اور باقی ماندہ 6 اوورز میں مزید 86 رنز کا ہدف تھا، جس کا پریشر اتنا تھا کہ اگلے 4 اوورز میں سے ہر اوور میں ان کی کم از کم ایک وکٹ ضرور گری۔
پھر عمران طاہر نے اپنے آخری اوور میں 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے تمام شکوک و شبہات کا خاتمہ کردیا اور 20 اوورز مکمل ہوئے تو پشاور 9 وکٹوں پر 159 رنز پر ہی کھڑا رہ گیا۔
فائنل میں ملتان نے 47 رنز سے نمایاں اور واضح کامیابی حاصل کی جس میں گزشتہ فتوحات کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔
کوالیفائر میں ملتان نے اسلام آباد یونائیٹڈ کو 31 رنز سے شکست دی تھی، اس سے پہلے لاہور قلندرز کے خلاف اہم مقابلہ 80 رنز سے جیتا، کوئٹہ کو تو 110 رنز کے ریکارڈ مارجن سے شکست دے کر ٹورنامنٹ ہی سے باہر کیا اور پہلے مرحلے میں پشاور زلمی کے خلاف بھی 8 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس بہترین فارم میں تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام کامیابیاں ملتان سلطانز نے لیگ کی متحدہ عرب امارات منتقلی کے بعد ہی حاصل کیں۔ یہاں انہیں کھیلے گئے 7 میچوں میں صرف ایک شکست ہوئی اور فائنل سمیت 6 میچوں میں کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ جبکہ اس سے پہلے یہ حال تھا کہ سیزن کے ابتدائی 5 میچوں میں ملتان صرف ایک مقابلہ جیتا تھا اور قریب تھا کہ ٹورنامنٹ ہی سے باہر رہ جاتا۔
بہرحال، گزشتہ سال ملتان پہلے مرحلے میں پوائنٹس ٹیبل پر نمبر وَن پر آیا تھا اور جب کورونا وائرس کی وجہ سے لیگ کو ملتوی کرنا پڑا تھا تو تجویز دی گئی تھی کہ اگر لیگ کو یہیں پر ختم کرنا ہے تو سب سے زیادہ کامیابیاں سمیٹنے پر ملتان سلطانز کو چیمپئن قرار دیا جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، لیگ دوبارہ شروع ہوئی تو ملتان نے چند ایسی غلطیاں کیں، جس کا خمیازہ انہیں 2 بڑے مقابلوں میں شکست اور اعزاز کی دوڑ سے باہر ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ تاہم اس مرتبہ انہوں نے پچھلے سال کی غلطیاں نہیں دہرائیں۔ بھرپور اعتماد اور باہمی ہم آہنگی سے ہر بڑے مقابلے میں بڑا کھیل پیش کیا۔
سلطانز اجتماعی طور پر تو چمپیئن بنے ہی، انفرادی سطح پر بھی تقریباً سارے ہی اعزازات ملتانیوں نے لوٹے۔ بہترین بیٹسمین، بہترین کھلاڑی اور فائنل کے مردِ میدان کے تینوں اہم اعزازات صہیب مقصود کو ملے جبکہ بہترین باؤلر اور بہترین ابھرتے ہوئے کھلاڑی شاہنواز دھانی اور بہترین وکٹ کیپر محمد رضوان قرار پائے۔ لے دے کر ایک ٹرافی رہ گئی تھی جو بہترین فیلڈر کی تھی وہ افتخار احمد کے نام ہوئی۔
پاکستان سپر لیگ 2021ء محمد رضوان کے کیریئر میں ایک اور فیصلہ کن موڑ لائی ہے اور عین ممکن ہے کہ مستقبلِ قریب میں ہمیں وہ پاکستان کی قیادت کرتے نظر آئے، خاص طور پر ٹی20 فارمیٹ میں کیونکہ انہی کی زیرِ قیادت خیبر پختونخوا نے گزشتہ سال ہونے والا نیشنل ٹی20 کپ جیتا تھا اور اب پاکستان سپر لیگ میں بھی کامیابی نے ان کے سینے پر سجے تمغوں میں ایک کا اضافہ کردیا ہے۔