ایران کی جوہری توانائی ایجنسی پر تخریب کاری کا منصوبہ ناکام
ایران نے ملک کی جوہری توانائی ایجنسی کی ایک عمارت پر تخریب کاری کا حملہ ناکام بنادیا اور حملے میں کسی بھی قسم کا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے نے بتایا کہ بدھ کی صبح ایران کی جوہری توانائی تنظیم کی ایک عمارت پر تخریب کاری کا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا اور اس حملے میں کسی قسم کا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔
مزید پڑھیں: ایران نے یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کا عمل شروع کردیا
انہوں نے مزید کہا کہ تخریب کار اپنے منصوبے پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہے البتہ عمارت اور اس پر کیے گئے حملے کی نوعیت کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
یہ واقعہ ایک ایسے موقع پر رونما ہوا ہے جب ایران اور عالمی طاقتیں ویانا مذاکرات میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق 2015 کے متنازع معاہدے کو بحال کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
اس معاہدے کی اسرائیل نے سخت مخالفت کی ہے جس پر ایران نے اپریل میں اپنے نطنز یورینیم کی افزودگی پلانٹ میں ہوئے چھوٹی نوعیت کے دھماکے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔
اسرائیل نے اس دھماکے میں ملوث ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کی لیکن عوامی ریڈیو نے نامعلوم خفیہ ایجنسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ جاسوس ایجنسی موساد کی تخریب کاری کی کارروائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ایران نے نطنز جوہری تنصیب پر حملے کو دہشت گردی قرار دے دیا
نیویارک ٹائمز نے نامعلوم امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس حکام کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں اسرائیل کا کردار تھا۔
اس وقت ایرانی وزارت خارجہ نے اسرائیل پر جوہری دہشت گردی کا الزام عائد کیا تھا اور بدلہ لینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کے اس گھناؤنے منصوبے کا مقصد ویانا جوہری مذاکرات کو ناکام بنانا تھا۔
اسرائیل نے ہمیشہ جوہری معاہدے کی مخالفت کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں اسلامی جمہوریہ ایران بم بنا سکتا ہے لیکن ایران نے ہمیشہ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی تردید کی ہے۔
اسرائیل کی نئی مخلوط حکومت میں وزیر خارجہ ییر لاپڈ نے گزشتہ ہفتے وعدہ کیا تھا کہ صیہونی ریاست ایران کو جوہری بم کے حصول سے روکنے کے لیے جو بھی ممکن ہو سکا وہ ضرور کرے گی اور 2015 کے معاہدے کی بحالی کے مخالف کرے گی۔
بدھ کو تخریب کاری کا ناکام حملہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب دو دن قبل ہی ایران نے کہا تھا کہ اس نے خلیج کے ساحل پر واقع بوشہر میں اپنا واحد جوہری بجلی گھر عارضی طور پر بند کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں: ایران پر حملہ کرنے کے نئے منصوبوں کی تیاری کا حکم دے دیا، سربراہ اسرائیلی فوج
پیر کے روز بوشہر پلانٹ میں باقاعدگی سے دیکھ بھال کے عمل کے حوالے سے عہدیداروں نے متضاد بیانات دیے۔
بوشہر پلانٹ اور اس کا ایک ہزار میگا واٹ کا ری ایکٹر روس نے بنایا تھا اور اسے ستمبر 2013 میں باضابطہ طور پر ایران کو سونپا گیا تھا، اس کے باوجود زلزلے سے متاثرہ علاقے میں اس کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
2015 کے جوہری معاہدے میں ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے پابندیوں میں نرمی کا مطالبہ کیا تھا جسے منظور کر لیا گیا تھا، اس معاہدے کو 2018 میں اس وقت منسوخ کردیا گیا جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر اس سے دستبرداری اختیار کرلی تھی اور ایران پر پابندیوں کو دوبارہ نافذ کردیا تھا۔
ٹرمپ کے جانشین جو بائیڈن اس معاہدے کی بحالی اور اس میں شمولیت کے خواہاں ہیں اور باقی فریقین اس معاہدے کو بچانے کے لیے ویانا میں مذاکرات میں مصروف ہیں۔
واضح رہے کہ یہ مذاکرات ایسے موقع پر ہو رہے ہیں جب چند دن قبل ہی ایران نے انتہائی قدامت پسند عالم دین ابراہیم رئیسی کو ایران کے اگلے صدر کے طور پر منتخب کیا ہے جبکہ امریکا نے کہا کہ یہ انتخابات شفاف نہیں تھے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا پابندیاں اٹھا لے تو جوہری معاہدے کی پاسداری کریں گے، ایران
ایران میں حتمی سیاسی اقتدار کے حامل سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی کے قریب تصور کیے جانے والے ابراہیم رئیسی نے پیر کو کہا تھا کہ وہ جوہری مذاکرات کو طول نہیں پکڑنے دیں گے۔
موجودہ صدر حسن روحانی اعتدال پسند رہنما تصور کیے جاتے ہیں اور وہ پہلے ہی لگاتار دو مرتبہ چار سال کے لیے منتخب ہو چکے ہیں اور ان کی زیادہ سے زیادہ مدت تک صدر رہنے کی مدت ختم ہونے کے بعد اگست میں ابرہیم ان کی جگہ لیں گے۔
اس جوہری معاہدے کے اہم فریق جرمنی نے کہا تھا کہ اس معاہدے کے جلد اچھے نتائج سامنے آنے والے ہیں اور یہ جلد طے پانے کے امکانات موجود ہیں۔