آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس: خواجہ آصف کی درخواستِ ضمانت منظور
لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کیس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کی درخواست ضمانت منظور کرلی اور ضمانتی مچلکے جمع کروانے پر انہیں جیل سے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں جسٹس شہباز رضوی پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے خواجہ آصف کی ضمانت کا متفقہ مختصر تحریری فیصلہ جاری کر دیا، جس میں خواجہ آصف کو ایک کروڑ روپے کا ایک ضمانتی مچلکہ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
مختصر تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ خواجہ آصف ٹرائل کورٹ میں ضمانتی مچلکہ جمع کرائیں اورکہا گیا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
قبل ازیں جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں جسٹس شہباز رضوی پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے خواجہ آصف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
گزشتہ سماعت میں خواجہ آصف کے وکیل اپنے دلائل مکمل کرچکے تھے اور آج کی سماعت میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکیل فیصل بخاری نے دلائل مکمل کیے۔
نیب کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ یکم مارچ 2018 کو عثمان ڈار نے خواجہ آصف کے خلاف نیب کو درخواست دی، 4 ستمبر کو انکوائری شروع ہوئی اور پھر انکوائری راولپنڈی سے لاہور منتقل ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ 29 دسمبر کو خواجہ آصف کو اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا ان کے خلاف انکوائری کو انوسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:لاہور ہائیکورٹ: جج نے خواجہ آصف کی درخواست ضمانت سننے سے معذرت کرلی
نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ 1991 میں خواجہ آصف پہلی مرتبہ سینیٹر منتنخب ہوئے، 1993 میں خواجہ آصف کے اثاثے 51 لاکھ روپے کے تھے اور 1993 سے 2018 تک خواجہ آصف ایم این اے بنتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف کو لوکل بزنس سے 5 کروڑ روپے کے لگ بھگ آمدن ہوئی، مجموعی طور پر انہیں تقریباً 33 کروڑ 30 لاکھ روپے کی آمدن ہوئی۔
نیب وکیل نے کہا کہ خواجہ آصف نے 15 کروڑ 70 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی اور ان کے مجموعی اخراجات 45 کروڑ 40 لاکھ روپے ہیں۔
وکیل نیب نے کہا کہ خواجہ آصف کا بیلنس منفی آرہا ہے، دبئی سے پیسہ خواجہ آصف کے پاس آیا، اس کی منی ٹریل نہیں دی گئی انہیں تنخواہ کی مد میں پیسہ ملا یا ان کی کوئی پارٹنر شپ تھی یہ بھی نیب کو نہیں بتایا گیا جبکہ ان کے اکاؤنٹ میں آنے والے 8 کروڑ روپے کا ماخذ بھی نہیں بتایا گیا۔
جسٹس عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ خواجہ آصف کے اکاؤنٹ میں ڈالر میں رقم آتی تھی یا پاکستانی روپوں میں؟
مزید پڑھیں:خواجہ آصف، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی ضمانت کی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر
جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ خواجہ آصف کو بیرون ملک سے ڈالرز میں رقم آتی رہی بعد میں اسے پاکستانی روپوں میں تبدیل کرایا جاتا تھا، ایف آئی اے نے خواجہ آصف کے خلاف صرف اقامہ کی تحقیقات کیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے مزید استفسار کیا کہ سیلری کا معاملہ ایف آئی اے کے پاس بھی آیا تھا کیا وہی نیب پوچھ رہا ہے جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس صرف اقامہ کی سیلری کا معاملہ آیا تھا جبکہ نیب نے خواجہ آصف سے آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق تحقیقات کیں۔
عدالت نے نیب وکیل سے دریافت کیا کہ خواجہ آصف نے اپنے اختیارات کا کیا غلط استعمال کیا؟ اور نیب کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟
جس پر نیب وکیل بولے کہ خواجہ آصف کے خلاف نیب کا کیس کک بیکس اور کرپشن کا نہیں بلکہ آمدن سے زائد اثاثوں کا ہے خواجہ آصف کا 23 کروڑ روپے کا منفی بیلنس تھا جو کم ہوکر 15 کروڑ روپے رہ گیا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ جو منفی بیلنس کم ہوا ہے کیا نیب نے اپنی رپورٹ میں یہ بات درج کی؟ جس پر نیب وکیل نے کہا کہ رپورٹ میں یہ بات نہیں لکھی لیکن نیب کے پاس ساری دستاویزات موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:خواجہ آصف کی لاہور ہائیکورٹ میں ضمانت کی درخواست سماعت کیلئے مقرر
جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ نیب کے 2 جوابات میں مختلف مؤقف سامنے آیا ہے، آپ کو بتانا ہو گا کہ خواجہ آصف نے کتنی کتنی رقم اکاؤنٹس میں جمع کروائی، اس وقت ہمارے سامنے نیب کے 2 جواب ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے، پہلے جواب میں 23 کروڑ روپے کا منفی بیلنس تھا دوسرے میں منفی بیلنس 15 کروڑ روپے کردیا گیا جس پر عدالت نے سوال کیا کہ آپ نے مخلتف رپورٹس میں وقت اور دورانیہ کیوں تبدیل کیا؟ جس کا نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ یہ تو نیب کی نیک نیتی ہے کہ خواجہ آصف کی متنازع رقم میں کمی کی۔
عدالت نے کہا کہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ انوسٹی گیشن جاری ہے، نیب کے تفتیشی افسر نے بیان دیا کہ ریفرنس حتمی منظور کے لیے چیئرمین نیب کو بھجوایا گیا ہے، یہ سب کیا ہے کوئی ایک بات کریں۔
اس دوران خواجہ آصف کے وکیل نے خواجہ آصف کا اقامہ عدالت میں پیش کیا۔
نیب کے وکیل نے کہا کہ بیرون ملک کمپنی سے خواجہ آصف کو 9 ہزار درہم ملتے تھے وہ جس کمپنی سے تنخواہ لیتے تھے ان کو لکھا ہے لیکن کمپنی نے تحقیقات میں شمولیت اختیار نہیں کی اور جواب دیا کہ وہ کسی عدالتی فورم پر جواب دیں گے۔
مزید پڑھیں:آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس: خواجہ آصف کا ایک روزہ راہداری ریمانڈ منظور
خواجہ آصف کے وکیل نے بتایا کہ ان کی دبئی کی کمپنی میں 8 کروڑ 70 لاکھ روپے تنخواہ تھی جس پر نیب وکیل نے کہا کہ یہ ساری معلومات نیب خواجہ آصف سے مانگتا رہا لیکن خواجہ آصف نے فراہم نہیں کیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ تھوڑی آنکھیں تو کھولیں خواجہ آصف کے اقامہ میں یہ سب کچھ لکھا ہوا ہے، دستاویزات میں سب درج ہے کہ کس ماہ کتنی سیلری آئی۔
وکیل نیب کا کہنا تھا کہ سال 2004 سے 2011 تک خواجہ آصف نے اپنی انکم ڈکلیر نہیں کی، جس پر عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ آپ اقامے کو مانتے ہیں لیکن اس کی شرائط کو نہیں مانتے کیا ایسا ہی ہے؟
نیب وکیل نے کہا کہ ہم تو اقامے کو بھی نہیں مانتے یہ کہیں سے بھی تصدیق شدہ نہیں ہے جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے اقامے کی تصدیق کرا لی ہے۔
وکیل نیب نے مزید کہا کہ خواجہ آصف کے خلاف 161 کے بیانات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں، انہوں نے بیرون ملک زن ریسٹورنٹ میں 25 ہزار ڈالر کی انوسٹمنٹ کی، وہ انوسٹمنٹ کہاں سے آئی خواجہ آصف نے کچھ نہیں بتایا۔
بعدازاں لاہور ہائی کورٹ خواجہ آصف کی درخواست ضمانت پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی ضمانت منظور کرلی اور مچلکے جمع کروانے پر جیل سے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
خواجہ آصف کی گرفتاری
مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کو قومی احتساب بیورو نے 29 دسمبر 2020 کی رات گرفتار کیا تھا اور اگلے ہی روز راولپنڈی کی احتساب عدالت میں پیش کر کے ان کا ایک روزہ راہداری ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد انہیں نیب لاہور منتقل کردیا تھا۔
نیب کی جانب سے جاری کردہ خواجہ آصف کی تفصیلی چارج شیٹ کے مطابق وہ نیب آرڈیننس 1999 کی شق 4 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کی دفعہ 3 کے تحت رہنما مسلم لیگ (ن) کے خلاف تفتیش کررہے تھے۔
اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ عوامی عہدہ رکھنے سے قبل 1991 میں خواجہ آصف کے مجموعی اثاثہ جات 51 لاکھ روپے پر مشتمل تھے تاہم 2018 تک مختلف عہدوں پر رہنے کے بعد ان کے اثاثہ جات 22 کروڑ 10 لاکھ روپے تک پہنچ گئے جو ان کی ظاہری آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔
مزید پڑھیں:خواجہ آصف نے اپنے قائد کی طرح ٹی ٹی کا طریقہ کار اپنایا، شہزاد اکبر
انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف نے یو اے ای کی ایک فرم بنام M/S IMECO میں ملازمت سے 13 کروڑ روپے حاصل کرنے کا دعوی کیا تاہم دوران تفتیش وہ بطور تنخواہ اس رقم کے حصول کا کوئی بھی ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم نے جعلی ذرائع آمدن سے اپنی حاصل شدہ رقم کو ثابت کرنا چاہا۔
احتساب کے ادارے کے مطابق ملزم خواجہ آصف اپنے ملازم طارق میر کے نام پر ایک بے نامی کمپنی بنام ’طارق میر اینڈ کمپنی‘ بھی چلا رہے ہیں جس کے بینک اکاؤنٹ میں 40 کروڑ کی خطیر رقم جمع کروائی گئی، اگرچہ اس رقم کے کوئی خاطر خواہ ذرائع بھی ثابت نہیں کیے گئے۔
نیب نے کہا کہ نیب انکوائری کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ کیا خواجہ آصف کی ظاہر کردہ بیرونی آمدن آیا درست ہے یا نہیں اور انکوائری میں ظاہر ہوا کہ مبینہ بیرون ملک ملازمت کے دورانیہ میں ملزم خواجہ آصف پاکستان میں ہی تھے جبکہ بیرون ملک ملازمت کے کاغذات محض جعلی ذرائع آمدن بتانے کے لیے ہی ظاہر کیے گئے۔