امریکی حکام نے متعدد سرکاری ویب سائٹس پر قبضہ کرلیا، ایران کا دعویٰ
دبئی: ایران نے کہا ہے کہ امریکی حکومت نے متعدد سرکاری ویب سائٹس اپنے قبضے میں لے لی ہیں جس کی وجوہات واضح نہیں۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام کی جانب سے ان قبضوں کا فوری طور پر اعتراف نہیں کیا گیا تاہم یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے کہ جب تہران کی جانب سے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے پر بات چیت ملتوی کرنے کے بعد ایران اور امریکا کے مابین سخت کشیدگی موجود تھی۔
ایران کے نو منتخب صدر نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس کرتے ہوئے سخت مؤقف اختیار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری مذاکرات ملتوی
انہوں نے کہا تھا کہ وہ صدر جو بائیڈن سے ملاقات نہیں کریں گے اور ساتھ ہی تہران کے بیلیسٹک میزائل اور علاقائی ملیشیاز کی حمایت پر مغربی طاقتوں سے مزید بات چیت کو خارج از امکان قرار دے دیا تھا۔
ایران کے سرکاری خبررساں ادارے ارنا نے آف لائن کی جانی والی ویب سائٹس کے سلسلے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امریکی محکمہ انصاف نے قبضے میں لیا۔
ایرانی حکومت سے منسلک ویب سائٹس اچانک بند ہوئیں اور ان پر امریکی قبضے کا نوٹس نظر آنے لگا۔
مزید پڑھیں:ابراہیم رئیسی ایران کے نئے صدر منتخب
ان ویب سائٹس میں سرکاری ٹیلیویژن کے انگریزی ورژن پریس ٹی وی کے علاوہ یمنی حوثی باغیوں کے المسیرہ سیٹیلائٹ نیوز چینل اور ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن کے عربی چینل العالم کی ویب سائٹ شامل ہے۔
حوثی باغیوں کے المسیرہ سیٹیلائٹ نیوز چینل نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس کی ویب سائٹ ایف بی آئی نے بند کی ہے۔
ایک بیان میں ادارے نے کہا کہ بغیر کسی پیشگی نوٹس کے ویب سائٹ بند کردی گئی لیکن چینل ہر طرح سے، اپنی قوم کے خلاف امریکی اور اسرائیلی قزاقوں کی کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کا مشن جاری رہے گا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا پابندیاں اٹھا لے تو جوہری معاہدے کی پاسداری کریں گے، ایران
ویب سائٹ پر نظر آنے والے نوٹس میں کہا گیا کہ بیورو آف انڈسٹری اینڈ سیکیورٹی، آفس آف ایکسپورٹ انفورسمینٹ اور فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی قانون نافذ کرنے کی کارروائی کے طور پر ویب سائٹس کو بند کیا گیا۔
امریکا میں پیدا ہونے والی پریس ٹی وی کی ایک نمایاں اینکر پرسن مرضیہ ہاشمی نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چینل کو اس بندش کا علم تھا لیکن اس سے متعلق مزید معلومات نہیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے۔
یہ خبر 23 جون 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔