• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

لاہور: جوہر ٹاؤن میں دھماکا، پولیس اہلکار سمیت 3 افراد جاں بحق

شائع June 23, 2021 اپ ڈیٹ June 24, 2021
دھماکے کے بعد پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاقے کو گھیرے میں لے لیا — فوٹو: عمران گبول
دھماکے کے بعد پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاقے کو گھیرے میں لے لیا — فوٹو: عمران گبول

لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکار سمیت 3 افراد جاں بحق اور 21 زخمی ہوگئے۔

ڈان نیوز کے مطابق دھماکا اللہ ہو چوک کے قریب ہوا جس سے قریبی گھروں اور گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔

سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے پولیس اہلکار سمیت 3 افراد کے جاں بحق اور 21 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔

انہوں نے کہا کہ زخمیوں میں سے مزید 5 کی حالت تشویشناک ہے۔

— فوٹو: عمران گبول
— فوٹو: عمران گبول

دھماکے کی ابتدائی رپورٹ

پولیس نے لاہور کی ابتدائی رپورٹ تیار کرلی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ دھماکے میں 15 سے 20 کلو گرام دھماکا خیز مواد استعمال ہوا اور دھماکے میں غیرملکی ساختہ مواداستعمال ہوا۔

رپورٹ کے مطابق دھماکے میں بال بیرنگ، کیل اور دیگر بارودی مواد استعمال ہوا اور دھماکا خیز مواد کار میں نصب تھا اور دھماکا کنٹرول ڈیوائس سے کار میں کیا گیا۔

مزید کہا گیا کہ دھماکے کی جگہ 3 فٹ گہرا اور 8 فٹ چوڑا گڑھا پڑا اور دھماکے سے 100 مربع فٹ سے زائد فاصلے کا علاقہ متاثر ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ دھماکے کی شدت کے باعث قریبی عمارتوں اور گاڑیوں کےشیشے ٹوٹے اور علاقے کی جیو فینسنگ شروع کردی گئی اور دھماکے کے وقت ہونے والی فون کالز کی تفصیلات اکٹھی کی جانے لگیں۔

تفتیشی ذرائع نے بتایا کہ مشتبہ کالز کو شارٹ لسٹ کیا جائے گا، گاڑی یا موٹر سائیکل پارک کرنے والے افراد کی لوکیشن بھی ٹریس کرنے کی کوشش جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈیوائس پلانٹ کرنے سے پہلے علاقے کی ریکی کی گئی، جیو فینسنگ کا عمل مکمل ہونے پر اہم انکشافات کی توقع ہے۔

سی سی ٹی وی فوٹیج

لاہور کے جوہر ٹاون میں ہونے والے دھماکے سے قبل سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آگئی ہے، جس میں دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی کو دیکھا جاسکتا ہے۔

فوٹیج میں کالے رنگ کی گاڑی کورولا گلی کے کونے پر کھڑی ہوتی ہے، گاڑی سے نیلی شلوار قمیض میں ملبوس شخص اترتا ہے، دوبارہ گاڑی میں بیٹھ کر دوبارہ اترتا ہے۔

سی ٹی ڈی کے مطابق مذکورہ آدمی دھماکے سےآدھا گھنٹے قبل کھڑی کر کے چلا جاتا ہے، دھماکے میں کئی میٹر دور جاکر گرنے والا پرزہ کار کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دھماکے کے لیے گاڑی پر دھماکا خیز ڈیوائس استعمال ہوئی اور ڈیوائس کار میں نصب کی گئی تھی، دھماکا ہوتے ہی کار کی سسپنشن وقوعہ سے کئی میٹر دور جاگری۔

ان کا کہنا تھا کہ کار کی سسپنشن کو فرانزک تجزے کے لیے بھجوا دیا گیا۔

قبل ازیں ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) لاہور مدثر ریاض ملک نے نجی ٹی وی چینل 'سما' سے جائے وقوع پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابتدائی طور پر دھماکے کے محرکات سامنے نہیں آئے لیکن اس سے گڑھا پڑ گیا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور : الیکٹرونکس کی ورکشاپ میں دھماکا، ایک ملازم جاں بحق

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم تحقیقات کے بعد ہی دھماکے کی نوعیت کا تعین کر سکیں گے'۔

دھماکے کے بعد پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا جبکہ زخمیوں کو جناح ہسپتال منتقل کردیا گیا۔

نجی چینل 'سما' سے بات کرتے ہوئے ایک عینی شاہد نے کہا کہ دھماکے سے ان کے گھر کو شدید نقصان پہنچا۔

ایک اور عینی شاہد نے دعویٰ کیا کہ موٹر سائیکل میں نصب ڈیوائس کو دھماکے سے اڑایا گیا۔

بعد ازاں میڈیا سے گفتگو میں آئی جی پنجاب انعام غنی نے کہا کہ 'دھماکا کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کے گھر کے قریب ہوا'۔

انہوں نے کہا کہ 'پولیس اہلکار حافظ سعید کے گھر کی سیکیورٹی پر تعینات تھے اور دھماکے کے نتیجے میں چند اہلکار شدید زخمی ہوئے۔

جائے وقوع پر موجود ڈان کے نمائندے نے بتایا کہ دھماکے سے حافظ سعید کے گھر کے شیشے اور دیواروں کو بھی نقصان پہنچا۔

انعام غنی نے کہا کہ حکام دھماکے سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جانی نقصان کا کوئی ازالہ نہیں ہوسکتا لیکن شہریوں کو یقین دہانی کرائی کہ ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے، سی ٹی ڈی اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا دھماکا خودکش تھا یا کیا اس میں کوئی ڈیوائس استعمال ہوئی'۔

آئی جی پنجاب نے شہریوں اور میڈیا کو 'افواہوں' سے گریز کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکام کو ہر سال خطرے کے سیکڑوں الرٹس موصول ہوتے ہیں، اب بھی ہمارے پاس خطرے کے 65 الرٹس ہیں، دھماکے کا ہدف پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تھے اور خطرے کا تازہ ترین الرٹ بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے متعلق ہی تھا کیونکہ یہ ہمارے حوصلے پست کرنا چاہ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی بیشتر واقعات میں 'بیرونی عناصر' ملوث ہوتے ہیں لیکن دشمنوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہر بار جب ہمارا نقصان ہوتا ہے تو ہمارا حوصلہ مزید بلند ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ایسے حملے اکثر ایسے ممالک کراتے ہیں جو پاکستان اور اس کی ترقی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی وجہ سے امن ہے'۔

مزید پڑھیں: لاہور: آؤٹ فال روڑ پر دھماکا، 46 افراد زخمی

وزیر اعلیٰ کا نوٹس

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے جوہر ٹاؤن میں دھماکے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) سے رپورٹ طلب کرلی اور واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

انہوں نے متعلقہ حکام کو زخمی افراد کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کرنے اور جناح اور دیگر ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی ہدایت کی۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی جوہر ٹاؤن میں ہونے والے دھماکے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب سے دھماکے کی رپورٹ طلب کر لی۔

انہوں نے کہا کہ 'دھماکے کی نوعیت معلوم کی جارہی ہے اور وفاقی ادارے، تحقیقات میں حکومت پنجاب کی معاونت کر رہے ہیں'۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر و قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے لاہور میں دھماکے کو 'برا شگون' قرار دیا۔

اپنے ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ 'اس بات پر شدید تشویش ہے کہ امن و امان کو وہ توجہ نہیں دی جارہی جس کا وہ تقاضا کرتی ہے، ممکنہ لیڈز تک پہنچنے کے لیے واقعے کی تحقیقات ضروری ہے، میں ورثا کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتا ہوں'۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024