افغانستان: طالبان نے تاجکستان جانے والی مرکزی سرحدی گزرگاہ پر قبضہ کرلیا
طالبان نے افغانستان کی تاجکستان کے ساتھ مرکزی سرحدی گزرگاہ پر قبضہ کرلیا اور حفاظت پر مامور سیکیورٹی فورسز کے اہلکار وہاں سے سرحد پار کر کے فرار ہو گئے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق قندوز شہر سے 50 کلو میٹر کے فاصلے پر افغانستان کے شمال میں شیر خان بندر پر قبضہ امریکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد سے طالبان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں کشیدگی میں اضافہ، آرمی چیف اور دو وزرا تبدیل
قندوز کی صوبائی کونسل کے رکن خالدین حکیمی نے بتایا کہ بدقسمتی سے آج صبح ڈیڑھ گھنٹہ لڑائی کے بعد طالبان نے شیر خان بندرگاہ اور تاجکستان کے ساتھ واقع قصبے اور تمام سرحدی چوکیوں پر قبضہ کرلیا۔
اس کے علاوہ فوج کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ہمیں تمام چوکیاں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور ہمارے کچھ فوجی سرحد عبور کر کے تاجکستان چلے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صبح تک سیکڑوں کی تعداد میں طالبان جنگجو ہر جگہ موجود تھے۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی کہ طالبان جنگجوؤں نے دریائے پاینج کے پار گزرگاہ پر قبضہ کر لیا ہے۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہمارے مجاہدین شیر خان بندر اور قندوز میں تاجکستان سے ملحقہ سرحدی گزر گاہوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دفتر خارجہ کا افغان مشیر قومی سلامتی پر امن مذاکرات کو نقصان پہنچانے کا الزام
صوبائی کونسل کے ایک اور رکن عمرالدین ولی نے بتایا کہ پیر کی شب سے اس علاقے سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔
اس گزرگاہ پر 700 میٹر طویل پل موجود ہے اور امریکا کے تعاون سے تعمیر کیا گیا یہ پُل 2007 میں کھولا گیا تھا جس کا مقصد وسط ایشیائی ہمسایہ ممالک کے مابین تجارت کو فروغ دینا تھا۔
یہ ایک وسیع و عریض خشک بندرگاہ ہے جو ایک دن میں ایک ہزار گاڑیاں سنبھالنے کے قابل ہے۔
قندوز کے صوبائی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے ترجمان مسعود وحدت نے بتایا کہ جس وقت قبضہ ہوا، اس وقت شیر خان بندرگاہ پر سامان سے لدے ہوئے 150 ٹرک موجود تھے اور ہمیں نہیں معلوم کہ ان کا کیا بنے گا، یہ ایک بہت بڑا مالی نقصان ہو گا۔
واضح رہے کہ پچھلے کچھ دنوں میں صوبہ قندوز میں شدید لڑائی ہوئی ہے اور پیر کے روز بھی قندوز شہر کے نواح میں طالبان اور افغان فورسز برسرپیکار رہیں۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں امن کا واحد راستہ اسلامی نظام ہے، طالبان
حکام نے بتایا کہ طالبان نے ہمسایہ صوبوں کو ملانے والی اہم شہروں کی شاہراہوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
طالبان نے اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ اس شہر پر قبضے کی کوشش کی ہے اور اس سے پہلے ستمبر 2015 اور اس سے ایک سال بعد بھی شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔
1990 کی دہائی میں اقتدار پر قبضہ کرنے سے قبل قندوز طالبان کا مضبوط گڑھ تھا اور یہاں اکثریتی آبادی پختون ہے جبکہ یہ شہر تاجکستان سے معاشی اور تجارتی نقل و حمل کے لیے اہم گزرگاہ ہے۔
مئی کے شروع سے ہی طالبان نے سرحدی علاقوں میں سرکاری فوجوں کو نشانہ بناتے ہوئے بڑی کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا اور ملک کے 421 اضلاع میں سے کم از کم 87 پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان امن عمل میں بگاڑ کا الزام لگایا گیا تو ذمہ داری نہیں لیں گے، وزیر خارجہ
تاہم افغان فوج کا کہنا کہ وہ جلد ہی کھوئے ہوئے علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر کارروائی کا آغاز کریں گے۔
سیکیورٹی فورسز کے ترجمان جنرل اجمل شنواری نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ مرکزی کمانڈ مکمل کنٹرول میں ہے اور دشمن کے خلاف تمام سیکیورٹی فورسز اور فوجی وسائل متحرک کردیے گئے ہیں لہٰذا آپ جلد ملک بھر میں ہماری پیشرفت دیکھیں گے۔