'وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے'
'جب ہمیں کسی سے محبت ہوجاتی ہے تو اس کی خاطر اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ہم خود میں بہتری لانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں تو ہمارے اردگرد کی ہر چیز بھی بہتر ہوجاتی ہے۔'
وہ برازیل کے شہر 'ریو ڈی جینیرو' میں 24 اگست 1947ء کو پیدا ہوا۔ اس کے والد اک انجینیئر تھے۔ وہ شروع سے ہی اپنے آپ میں گم رہنے والا بچہ تھا۔ وہ 17 سال کا ہوا تو اس کے والدین کو لگا کہ اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں اس لیے اسے دماغی امراض کے ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا جہاں ڈاکٹرز اسے بجلی کے جھٹکے دیتے تھے۔ اس نے 3 بار وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی، تاہم جب وہ 20 برس کا ہوا تو اسے ہسپتال سے فارغ کردیا گیا۔
وہ لکھاری بننا چاہتا تھا مگر اس کے والدین کا کہنا تھا کہ یہ کوئی کام نہیں ہے اور وہ اس سے اچھی زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس نے اپنے والدین کے کہنے پر قانون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔ ایک سال بعد ہی 1970ء میں اس نے کالج کو خیرباد کہہ دیا اور 'ہِپی' بن گیا۔ اس نے جنوبی امریکا، شمالی افریقہ، میکسیکو اور یورپ کا سفر کیا۔ 1972ء میں برازیل واپسی پر وہ گیت لکھنے لگا۔
پڑھیے: پاکستان میں بیوروکریسی کا گرتا ہوا معیار اور بے ہودہ پالیسیاں
1974ء میں اسے کچھ عرصے کے لیے سرکار کے خلاف سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور پھر جلد ہی اسے رہا کردیا گیا۔ 1980ء تک وہ چند مشہور میوزک کمپنیوں سے منسلک رہا، ان دنوں اس نے دوبارہ دنیا دیکھنے کا ارادہ کیا۔ یہ محض ایک سفر نہیں تھا بلکہ زندگی بدل دینے والا واقعہ تھا۔
اس بار اس نے اسپین کی طرف تقریباً 800 کلومیٹر پیدل سفر طے کیا۔ آگے چل کر ایک انٹرویو میں اس نے بتایا کہ، 'میں 1986ء میں بہت خوش تھا، میرے پاس سب کچھ تھا۔ میں کام کر رہا تھا، میرے پاس دولت تھی اور جس سے مجھے محبت تھی وہ میرے ہمراہ تھی۔ مگر میرا خواب ادھورا رہا، میرا خواب تھا لکھاری بننا۔ اس سفر کے اختتام پر میں نے سوچا کہ اپنی زندگی میں کیا کرنا چاہتا ہوں؟ تب میں نے تمام کشتیاں جلا کر ایک لکھاری بننے کا فیصلہ کرلیا‘۔
اس فیصلے نے اس کی زندگی بدل دی۔ اس نے نغمہ نگاری کا پُرکشش کام چھوڑ کر صرف کتابیں لکھنے پر توجہ مبذول کرلی۔ اس کا پہلا ناول 'دی پلگرمیج' 1987ء میں سامنے آیا جو اس کے روحانی سفر کے بارے میں تھا۔ 1988ء میں اس کا دوسرا ناول 'دی الکیمسٹ' پہلی بار پرتگالی زبان میں منظرِ عام پر آیا۔ برازیل کے ایک چھوٹے اشاعتی ادارے نے اس ناول کی صرف 900 کاپیاں چھاپی تھیں۔ 1993ء میں جب اس کا انگریزی ترجمہ چھپا تو پوری دنیا میں اس کتاب کے ڈنکے بج اٹھے۔ یہ بیسٹ سیلر قرار پائی۔ اب تک اس ایک ناول کی تقریباً ساڑھے 6 کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ بہت سی زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے۔ ہر چند سال بعد اس کی نئی کتاب آتی ہے اور شرف مقبولیت حاصل کرتی ہے۔ وہ دنیا کے چند صفِ اول کے ادیبوں میں سے ایک ہے اور دنیا اسے 'پاؤلو کویلہو' کے نام سے جانتی ہے۔
امجد اسلام امجد صاحب موجودہ دور کے بہت بڑے شاعر ہیں، چند سال پہلے انہوں نے ایک انٹرویو دیا۔ اس دوران جب میزبان نے ان کا تعارف کروایا کہ ہمارے ساتھ اس عہد کے بہت بڑے شاعر موجود ہیں تو انہوں نے کمال انکساری سے جواب دیا کہ بڑے لوگ چلے گئے ہیں ہم ان کے جانے کے بعد بڑے بن گئے ہیں۔ امجد اسلام امجد یقیناً ایک بہت بڑا نام ہے، وہ اردو ادب کی خوبصورت روایات کے امین ہیں۔ جس لڑی کے وہ دمکتے ہوئے ستارے ہیں ان کے رفقا کو چھوڑ کر موجودہ دور کے ادیبوں میں ان سا کوئی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔
21ویں صدی کا سورج طلوع ہوا تو پاکستان میں ایک آمر کا طوطی بولتا تھا۔ پرویز مشرف تھے تو آمر مگر انہیں 'روشن خیال اور معتدل مزاج' کہلانے کا خبط سوار رہتا تھا سو اسے ثابت کرنے کے لیے جب میڈیا کو 'آزاد' کرنے کا فیصلہ ہوا تو صحافیوں کی سنی گئی۔ وہ راتوں رات حالات حاضرہ کے 'پاپ اسٹارز' بن گئے اب اک دوڑ سی لگ گئی اور ہر شخص کی یہی تمنا بن گئی کہ وہ یا تو اینکر بن جائے وگرنہ کسی اخبار کے لیے کالم لکھنا ہی شروع ہوجائے۔ اینکر تو خیر 'بادشاہ گر' کے رتبے پہ فائز ہوگئے مگر کالم نگار بھی کسی سے کم نہ رہے اور وہ بھی آخر کار ٹی وی کے پردہ اسکرین پر جلوہ افروز ہوکر قوم کی 'ذہن سازی' کے عمل میں مصروف ہوگئے۔
اس کے کئی فائدے ہوئے مگر کچھ ناقابلِ تلافی نقصانات بھی ہوئے۔ ہر وہ شخص جو اک اچھا نثر نگار تھا وہ 'کرنٹ افیئرز' کی چکی میں پِس کر رہ گیا اور بھیڑ چال کی نذر ہوگیا۔ ہر دوسرے دن سیاست پر 'قلم گھسائی' سے ہمارے سیاستدانوں نے اپنی روش بدلی اور نہ ہی عوام اس ذہنی بالیدگی کی سطح کو پہنچ پائے جس کی تمنا چند پرانی وضع کے صحافیوں کے دل میں تھی۔ اس کا اصل نقصان اردو ادب کو ہوا، اور یہی وجہ ہے کہ پچھلی 2 دہائیوں میں شاید ہی کوئی بڑا لکھاری یا شاعر اُبھر کر سامنے نہیں آیا جس کے ناول، نظم، افسانے یا غزل نے کوئی تہلکہ مچایا ہو۔
مجھے کوئی شاعر نظر نہیں آیا جسے حبیب جالب یا استاد دامن کی طرح کلمہ حق کہنے کی قوت حاصل ہو۔ کیا وجہ ہے کہ کوئی ناصر کاظمی، مجید امجد یا ن م راشد نہیں رہا؟ کیا ہماری سوچوں کے پر کٹ گئے ہیں یا پھر ہمارے دانشور 'سیانے' ہوگئے ہیں؟
اب کون نظیر اکبر آبادی یا جالب کی طرح عوام کے درد کا رونا روئے؟ اکثر جو بڑے 'فنکار' لکھاری ہیں وہ تو مغربی فلموں کے کرائے کے 'باؤنٹی ہنٹر' بن گئے ہیں۔ قلم کو ہتھیار بناکر اور دشمنوں کے 'کشتوں کے پشتے' لگا دیتے ہیں۔ انہوں نے 2 آپشن بخوبی استعمال کیے ہیں، پہلا یہ کہ شاہ کے فرمانبردار بن کر اس کے سیاہ و سفید کے گُن گائے جائیں اور دوسرا یہ کہ مستقبل کے متوقع 'شاہ' کے قصیدہ خواں بن جاؤ۔ اگر آپ زیادہ قابل ہیں تو 'اسپن ماسٹر' کی کرسی آپ کے لیے حاضر ہے، اصل فائدے میں یہی رہتے ہیں۔ جب 'داؤ' لگے تو اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں اور جب کرسی چھن جائے تو صحافت کا 'چولا' بدل کر وہی کام وہیں سے شروع کردیتے ہیں جہاں پر چھوڑا ہوتا ہے۔
پڑھیے: تن کا کپڑا اور منہ کا نوالہ
چند ایک کو چھوڑ کر سب پیڑھی پر بیٹھے محنت کشوں کی مانند 'قلم مزدور' بن کر رہ گئے ہیں جو قلم کو کدال کی طرح کاندھے پر لیے انتظار میں رہتے ہیں کہ کب کوئی آئے اور وہ اس کی جانب لپکیں۔ مانا کہ زندگی کے تلخ حقائق سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ یہ بھی اک تلخ حقیقت ہے کہ غالب اور ذوق جیسے نادر روزگار شاعروں کو بھی شاہ کی قصیدہ گوئی کرنی پڑی۔
مگر ان سب نے دولت کی چاہ کو ہی اپنا مقصدِ حیات کبھی نہیں بنایا۔ ایسا ادب تخلیق کیا کہ جو آج تک لوگ پڑھ کر سر دھنتے ہیں۔ تاریخ کے پنوں میں شیکسپیئر کے سوا، جو کہ ساہو کار تھے، کوئی شاعر یا ادیب اپنی زندگی میں مالی طور پر کم ہی خوشحال دکھائی دیتا ہے۔ غالب جیسے عظیم شاعر ساری عمر تنگدستی میں گزار گئے۔ مجید امجد جیسا شاندار شعر کہنے والا اک چھوٹی سی کوٹھڑی میں اکیلا ہی دم توڑ گیا۔ حبیب جالب تنگدست رہے مگر کبھی کسی سے کوئی مالی فوائد نہ لیے۔ استاد دامن ایک کوٹھڑی میں ہی زندگی بِتا گئے۔ ایسی بے شمار مثالیں دنیا کی تاریخ میں موجود ہیں۔ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اچھا ادب تخلیق کرنے والے جو نگینے تھے وہ آخر کہاں غائب ہوگئے؟
اس کا جواب شاید یہی ہے کہ ہمارے عہد کی ستم ظریفی ہے کہ اکثر اچھے نثر نگار جنہیں اللہ نے گراں قدر بولنے اور لکھنے کی صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان میں سے کچھ شاہ کے قصیدہ خواں ہوکر رہ گئے اور باقی بس سیاست کی بھٹی میں جل کر خاکستر ہو رہے ہیں۔ کیا یہ اردو ادب اور پڑھنے والوں سے ناانصافی نہیں؟ کچھ قلم کا قرض بھی تو ہوتا ہے؟ شوکت صدیقی صاحب بھی صحافی تھے مگر انہوں نے جانگلوس اور خدا کی بستی نامی شاہکار ناول بھی تخلیق کیے جو اب ان کی شناخت ہیں۔
لوگ کالم چند دن میں بھول جاتے ہیں مگر ناول اور شاعری جیسی ادبی تخلیقات صدیوں بعد بھی زندہ رہتی ہیں۔ میکیاولی کی 'دی پرنس' آج بھی ویسے ہی مقبول ہے، ٹالسٹائی کا ناول 'جنگ اور امن' اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی پڑھنے والوں کو ششدر کردیتا ہے۔
ڈاکٹر جمیل الدین عالی صاحب نے ایک جگہ کہا ہے کہ اردو ادب کے کچھ ادیبوں نے لکھنا شروع کیا تو ایک تہلکہ مچادیا۔ مگر وہ اس روش پر زیادہ دیر قائم نہ رہ پائے اور اس درجے کم ہی تصانیف ضبطِ تحریر میں لاسکے کیونکہ ریڈیو اور ٹی وی نے ان کی راہ کھوٹی کردی۔
اس قوم کی ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ اکثر دانشور اور ذرخیز دماغ ٹی وی یا سوشل میڈیا کی 'اسکرین' کی چکا چوند میں کھوگئے ہیں۔ ان کو ریٹنگز، یوٹیوب چینل کے سبسکرائیبرز، ویوز اور لائکس کی فکر ہر دم ستائے رکھتی ہے۔ جس طرح ہمارے وطن کا ہر شعبہ زوال کا شکار ہے شاید ہمارے ادب پر بھی اس کے کالے سائے پڑچکے ہیں۔
میں ان کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر
وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے
اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
تبصرے (1) بند ہیں