’محبت اگر جرم ہے تو شریکِ جرم تو مرد بھی تھا‘
ان دونوں نے پسند کی شادی کی تھی۔ ہر کوئی انہیں رشک و حسد سے تکتا۔ ان پر نگاہ پڑتے ہی سرگوشیاں شروع ہوجاتیں۔ والدین ان سے تعلق توڑ چکے تھے اور خاندان والوں نے بھی ان سے منہ پھیر لیا تھا، لیکن انہیں کسی کی پرواہ نہیں تھی۔
2 کمروں پر مشتمل چھوٹے سے گھر کے آنگن میں وہ ایک دوسرے کی سنگت میں ڈوبے رہتے۔ جب ان کی جمع پونجی ختم ہونے لگی تو عاصم کو بڑی کوششوں سے گلاس فیکٹری میں نوکری ملی اور یوں وہ زندگی کے اتار چڑھاؤ ایک کے بعد ایک عبور کرنے لگے۔ وہ بڑی مشکل سے گھر کے کرائے، بجلی و گیس کے بل اور دیگر اخراجات کا بوجھ اٹھارہے تھے، پھر اس مالی تنگی میں ہی ان کے ہاں اولاد ہوئی۔ مگر دونوں پوری استقامت سے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹتے رہے۔
مزید پڑھیے: ’اگر میں گھر سے نہ بھاگتی تو اپنی عزت سے ہاتھ دھو بیٹھتی‘
اکثر دیوار کے اس پار سے ان کی آپسی فکر میں گندھی پیار بھری سرگوشیاں سنائی دیتیں۔ بارش کی ہلکی سی پھوار پڑتے ہی ان کے باورچی خانے سے آتی بھینی بھینی فرمائشی پکوڑوں کی خوشبو اور دَم والی الائچی کی چائے سے اٹھتی مہک میرے ذہن میں ان کی محبت سے بھرپور ایک خوبصورت زندگی کا تصور لاتی۔
سارے جہاں کی مخالفت مول لینے کے باوجود یہ کتنے خوش نصیب ہیں کہ اپنی تنہائیوں کو اپنی محبتوں سے بہلا لیتے ہیں۔ یہ بھی کتنے کرم کے فیصلے ہوتے ہیں ورنہ ارینج میرج سے موازنہ کیا جائے تو کبھی لڑکی سے مرضی نہیں پوچھی جاتی تو کبھی لڑکے پر زبردستی تھوپی جاتی ہے۔
ارینج میرج میں زبردستی کا رشتہ بنا تو دیا جاتا ہے مگر دونوں فریقین اکثر ساری زندگی خوشی کے لمحات ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں۔ ساس کو لگتا ہے کہ بچہ ہوجائے گا تو سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن بچہ بھی بعض اوقات ان دونوں کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
روایتوں کا بھیانک تسلسل جاری رکھنے کے لیے 2 انسانوں کو زبردستی رشتہ ازدواج میں منسلک کردیا جاتا ہے۔ مرضی کے خلاف رشتوں کی تلخیاں صرف جھیلنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔
ہمارے اس قدر روایت پرست سماج میں ان دونوں کا اتنا سخت قدم اٹھانا اور اپنے لیے خود فیصلہ کرنا اور پھر اس کو نبھانا کم از کم میرے لیے بہت ہی خوشگوار احساس کا باعث تھا۔
پڑھیے: 'اطاعت شعار' بنانے کے لیے قبرستان میں زیادتی
ہمارا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تو نہیں تھا لیکن میرا اور سمعیہ کا تعلق ہمارے گھروں کی اس مشترکہ دیوار کی وجہ سے جُڑ چکا تھا جہاں پر کھڑے ہوکر ہم گھنٹوں باتیں کرتے اور پکوانوں کا تبادلہ کرتے۔ پھر یہ طویل ملاقاتیں ان کے ہاں بیٹی کی پیدائش کے بعد کم ہونے لگیں البتہ باتوں کا مختصر تبادلہ اب بھی جاری تھا۔ پسند کی شادی کے بارے میں میرے مثبت خیالات کی وجہ عاصم اور سمعیہ تھے۔ مجھے لگا پسند کی شادی ہی 2 انسانوں کی تکمیل کا نام ہے اور میں اپنے حلقہ احباب میں اس پر دلائل بھی دیتی کہ اس کی ٹھوس وجہ میرے سامنے تھی۔ لیکن ایک دن میرے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
وہ ایک بدقسمت دن تھا جب بتدریج تیز ہوتی آوازوں میں یہ سُنا کہ 'ارے میں تجھ جیسی عورت پر کیا اعتبار کروں؟ تجھ جیسی گندی عورت پر! جو اپنی ماں کی نہ بن سکی وہ میری کیا بنے گی؟'
'دھمکی نہ دے ابھی نکل! مگر میں اپنی بیٹی کسی صورت تجھے نہیں دوں گا، تجھ پر کیا بھروسہ؟'
پورا جہاں تیاگ کر سمعیہ کو اپنی دنیا بنانے والے عاصم کی یہ آواز تھی۔
اس لڑائی میں سمعیہ یقیناً بُت بن گئی ہوگی، کیونکہ اس کی کوئی آواز سننے کو نہیں ملی۔ جانے کیسی چپ لگ گئی تھی اسے؟
وہ آوازیں کسی تیز دھار آلے کی ضرب سے کم نہ تھیں۔
میرے سینے پر بوجھ بڑھتا گیا اور مزید سننے کی تاب نہ تھی سو میں اپنے کمرے میں چلی آئی اور دروازہ بند کرکے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ دیے لیکن میرے ذہن میں ان جملوں کی تکرار شروع ہوچکی تھی۔
'گندی عورت'
چھوٹے سے آشیانے میں محبت کا جو بلند محل بڑے مان سے ان دونوں نے کھڑا کیا تھا وہ اب بکھر رہا تھا، اب اگر اسے سمجھوتوں کی اینٹوں سے پھر بنایا بھی جائے تو اس کی دراڑیں محبتوں کو محفوظ چھت نہیں دے پائیں گی۔
'گندی عورت' کون ہوتی ہے؟
ایک لڑکی خود سے بڑھ کر ایک مرد کی چاہ میں محبت کی انگلی تھامے چل پڑتی ہے، حرام سے بچ کر نکاح کو ترجیح دیتے ہوئے اک مقدس تعلق کے نتیجے میں بچے کو جنم دیتی ہے اور وفا کی پاسدار بنتی ہے، پھر محبت میں دی گئی دونوں کی قربانی صرف ایک فریق کے لیے گالی کیسے بن سکتی ہے؟ وہ گندی عورت کیسے ہوسکتی ہے؟
پڑھیے: گھریلو تشدد کو نظر انداز کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے!
محبت کی راہ پر چلنے کا فیصلہ تو مشترکہ تھا تو پھر یہ گالی صرف عورت کے حصے میں کیوں آئی؟ محبت اگر جرم ہے تو شریکِ جرم تو مرد بھی تھا۔ وہ اس گالی سے مبرا کیسے ہوسکتا ہے؟ پسند کی شادی سے متعلق میری تھیوری یکسر تبدیل ہوگئی کہ ایک خاتون اپنے پسند کے ساتھی کے ساتھ بھی کریکٹر لیس کا تمغہ کسی بھی لمحے پاسکتی ہے۔
پسند کی شادی میں تو ارینج میرج سے بھی زیادہ خطرناک خطاب ملنے کے اندیشے ہیں۔ ارینج میرج میں اس طرح کے اذیت ناک جملوں کو قدرے کم سہنا پڑتا ہے۔
سوشل میڈیا پر شادی کی تقریب کا ایک ویڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک رسم کے مطابق دولہا دلہن ایک دوسرے کو مٹھائی کھلانے والے تھے۔ دلہن کی جب باری آئی تو اس نے ازراہِ مذاق اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور لگ بھگ 2 بار ایسا ہوا کہ دلہن نے مٹھائی دولہا کے منہ کے پاس لے جاکر دُور کرلی۔ اس کے پاس کھڑی سکھیاں، کزنز اور فیملی کی دیگر خواتین اس نوک جھونک پر مسکرائے جاتیں کہ اچانک دولہا کا ہاتھ اٹھ گیا اور اس نے ایک زور دار تھپڑ دلہن کو جڑ دیا۔ وہ گال پر ہاتھ رکھ کر گرنے لگی کہ پاس کھڑی خواتین نے سنبھال لیا۔ اس کا ہاتھ گال پر ہی دھرا رہا اور اس بے یقینی کی کیفیت میں وہ نظریں چرانے لگی۔ خواتین دولہے کو دُور کونے میں لے جاکر سمجھانے لگیں اور یہاں کلپ ختم ہوگیا۔
مگر اس کلپ سے مرد کے اجڈپن اور عورت کی بے بسی آشکار ہونے کے ساتھ ساتھ کراہیت بھی محسوس ہوئی، ایسے مواقع پر ناجانے کیوں مجھے کچھ لوگوں کی بات یاد آگئی کہ جو عورت پر تشدد کے واقعات کا سن کر فوراً یہ فیصلہ سنا دیتے ہیں کہ عورت زبان دراز ہوگی تبھی مرد نے ہاتھ اٹھایا۔ اسی طرح کے بہت سارے جملے میری یادداشت پر دستک دینے لگتے ہیں۔
بہرحال اب میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ شادی چاہے ارینج ہو یا پسند کی، رشتے میں ایک دوسرے کے لیے عزت اور احترام کا ہونا لازمی ہے۔ لیکن اگر دونوں میں سے ایک فریق بھی اس تقاضے پر پورا نہیں اترتا تو پھر اس بندھن میں بھی کچھ نہیں بچتا کیونکہ ازدواجی زندگی کی بنیاد ہی ایک دوسرے کے احترام سے شروع ہوتی ہے۔