• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

پی ایس ایل سیزن 6: آگے کیا ہونے جارہا ہے؟

شائع June 21, 2021

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) پلے آف مرحلے میں پہنچ چکی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ساتھ ساتھ لاہور قلندرز کی بھی گھر واپسی ہوچکی ہے۔ پلے آف مرحلے میں پہنچنے والی ٹیموں کے کیا امکانات ہیں، وہ کیا کرسکتی ہیں اور کیسے کرسکتی ہیں، آئیے اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں۔

اس ٹورنامنٹ میں جہاں اسلام آباد یونائیٹڈ نے بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے 8 میچ جیتے اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم نہایت خراب کھیل پیش کرنے کے بعد صرف 2 میچ جیت سکی وہیں باقی چاروں ٹیموں کے درمیان فرق صرف نیٹ رن ریٹ کا رہا۔ کوالیفائر کھیلنے والی ملتان سلطانز اور پلے آف مرحلے سے باہر ہوجانے والے قلندرز نے 5، 5 میچ ہی جیتے لیکن اصل فرق نیٹ رن ریٹ کا ہی رہا۔

اسلام آباد یونائیٹڈ

اس وقت پوائنٹس ٹیبل پر اسلام آباد یونائیٹڈ 16 پوائنٹس کے ساتھ سرِفہرست ٹیم ہے اور پی ایس ایل میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی ٹیم نے لیگ مرحلے میں 10 میں سے 8 میچ جیتے ہوں۔

بیٹنگ

ابوظہبی میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی مہم کا آغاز لاہور قلندرز کے ہاتھوں شکست سے ہوا جہاں راشد خان، جیمز فالکنر اور حارث رؤف کی باؤلنگ کا اسلام آباد یونائیٹڈ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس شکست سے سوال اٹھا کہ کیا اسلام آباد یونائیٹڈ کے بیٹسمین ابوظہبی کی سست وکٹوں پر سیٹ ہوپائیں گے؟

تاہم اس سوال کا جواب اگلے ہی میچ میں آگیا جب ایک چھوٹے ہدف کے تعاقب میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے اوپنرز نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے باؤلروں کا بھرکس نکال دیا۔ بس پھر اس کامیابی کے بعد اس ٹیم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ لاہور قلندرز کے خلاف ان کے ابتدائی بیٹسمین ناکام ہوئے تو آصف علی اور افتخار احمد نے ٹیم کو ایک معقول اسکور تک پہنچا دیا اور جب کراچی کنگز کے خلاف ایک بڑے ہدف کا تعاقب کرنا تھا تو کالن منرو اور افتخار احمد نے کراچی کے باؤلروں کو آڑے ہاتھوں لیا۔

مزید پڑھیے: قلندرز بمقابلہ یونائیٹڈ: وہ غلطیاں جو دونوں ٹیموں کو دور کرنی ہوں گی

اس میچ کے بعد جب اسلام آباد یونائیٹڈ کی جگہ پلے آف مرحلے میں کنفرم ہوگئی تو انہوں نے اگلے 2 میچوں میں اپنے کئی اہم کھلاڑیوں کو آرام دینے کا فیصلہ کیا، لیکن اس کے باوجود ایک میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے پاکستان سپر لیگ کا سب سے بڑا اسکور بنا دیا اور دوسرے میں ملتان سلطانز کو ایک بہترین آغاز کے باوجود ایک کمتر اسکور پر ڈھیر کردیا۔

اگر اسلام آباد یونائیٹڈ کی بیٹنگ کی بات کی جائے تو دونوں اوپنر کالن منرو اور عثمان خواجہ بہترین فارم میں ہیں اور تیزی سے اسکور بنا رہے ہیں۔ مڈل آرڈر میں افتخار احمد اور آصف علی بھی جارحانہ اور بڑی اننگز کھیل رہے ہیں۔ ان کا ساتھ برینڈن کنگ اور شاداب خان بھی دے رہے ہیں۔

اپنے کئی اہم کھلاڑیوں کے بغیر بھی یونائیٹڈ نے پی ایس ایل کا سب سے بڑا اسکور بنادیا
اپنے کئی اہم کھلاڑیوں کے بغیر بھی یونائیٹڈ نے پی ایس ایل کا سب سے بڑا اسکور بنادیا

باؤلنگ

باؤلنگ کو دیکھا جائے تو شاید میچ سے پہلے اسلام آباد یونائیٹڈ کی انتظامیہ اس پریشانی میں مبتلا ہوگی کہ کسے کھلایا جائے اور کسے باہر بٹھایا جائے۔

نوجوان کھلاڑیوں کی بات کی جائے تو عاکف جاوید عمدہ باؤلنگ کر رہے ہیں لیکن محمد وسیم ان سے بھی آگے ہیں۔ فہیم اشرف انجری سے واپسی کرچکے جبکہ حسن علی پچھلے 4، 5 ماہ سے زندگی کی بہترین فارم میں ہیں۔ فواد احمد بھی اچھی باؤلنگ کرچکے جبکہ آل راؤنڈرز میں افتخار اور حسین طلعت بھی موجود ہیں۔ ہاں البتہ کپتان شاداب خان کی باؤلنگ فارم ٹیم انتظامیہ کے لیے کسی حد تک پریشان کن ہے، جس پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے.

ملتان سلطانز

بیٹنگ

ملتان سلطانز کی بات کی جائے تو انہوں نے سابق کپتان شان مسعود کی صورت میں موجودہ کپتان محمد رضوان کے لیے ایک بہترین اوپننگ پارٹنر ڈھونڈ لیا ہے۔ شان مسعود کافی تیزی سے اسکور بنا رہے ہیں اور اس مرحلے پر ان کی بیٹنگ ملتان سلطانز کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوگی۔ محمد رضوان پچھلے 6 ماہ سے بہترین ٹی20 کرکٹ کھیل رہے ہیں اور پلے آف میں بھی ملتان سلطانز کو ان کی بہترین اننگ کی ضرورت ہوگی، ایک ایسی اننگ جس میں وہ زیادہ وقت کریز پر گزار سکیں اور ایک بڑا اسکور کریں۔

اوپنرز کے علاوہ صہیب مقصود بھی اس وقت بہترین بیٹنگ کر رہے ہیں اور اگر وہ کریز پر 8، 10 اوورز گزار گئے تو وہ وقت باؤلرز کے لیے اچھا نہیں رہے گا۔ صہیب مقصود نے جس طرح ٹورنامنٹ میں تمام بیٹسمینوں کے لیے عذاب بنے رہنے والے جمیز فالکنر کا سامنا کیا ہے وہ باقی بیٹسمینوں کے لیے ایک اچھی مثال ہے۔

ملتان سلطانز کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی بیٹنگ ٹاپ آرڈر پر ہی تقریباً ختم ہوجاتی ہے۔ ملتان سلطانز کی جانب سے نہ ہی ان کے غیر ملکی کھلاڑی رائیلی روسو اور جانسن چارلس زیادہ اسکور بنا سکے ہیں اور نہ ہی پاکستانی بیٹسمین خوشدل شاہ۔ ملتان سلطانز کے ٹاپ آرڈر کو ان کے مڈل آرڈر کی جانب سے کچھ مدد کی لازمی ضرورت رہے گی۔

باؤلنگ

ملتان سلطانز کی باؤلنگ بہت عمدہ فارم میں ہے۔ شاہنواز دھانی ٹورنامنٹ میں اب تک سب سے زیادہ وکٹیں لے چکے ہیں اور ساتھ ہی وکٹیں لینے کے بعد خوشی کے اظہار کے منفرد انداز کی وجہ سے کھلاڑیوں، صحافیوں اور سوشل میڈیا پر خوب نام بنا رہے ہیں۔ پھر ساتھی باؤلرز عمران خان اور سہیل تنویر نے بھی دھانی کا بہت عمدہ ساتھ دیا ہے۔

زمبابوے سے آئے بلیسنگ مذرمبانی بھی ان کا اچھا ساتھ دے رہے ہیں اور پھر عمران طاہر تو ہیں ہی ایک خاص باؤلر۔ 42 سال کی عمر میں بھی ان کا جادو ایسا ہے کہ عثمان قادر کے لیے ٹیم میں جگہ بنانا ناممکن ہوچکا ہے۔ ملتان سلطانز کی ٹیم کراچی میں صرف ایک ہی میچ جیت پائی تھی لیکن ابوظہبی میں تو جیسے ٹیم کی کایا ہی پلٹ گئی اور اس نے پہلے چاروں میچ جیت لیے۔

سلطانز کے شاہنواز دھانی ٹورنامنٹ میں اب تک سب سے زیادہ وکٹیں لے چکے ہیں
سلطانز کے شاہنواز دھانی ٹورنامنٹ میں اب تک سب سے زیادہ وکٹیں لے چکے ہیں

دونوں ٹیمیں کافی متوازن ہیں لیکن موجودہ فارم کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد یونائیٹڈ کو واضح برتری حاصل ہے۔ ٹی20 فارمیٹ میں جیت ہار کی پیشگوئی کرنا تو ممکن نہیں ہے لیکن اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم جس طرح کی کرکٹ کھیل رہی ہے، اسے دیکھ کر لگتا یہی ہے کہ وہ پلے آف کی طرح فائنل میں پہنچنے والی بھی پہلی ٹیم بن جائے گی۔ دونوں ٹیمیں ڈیٹا اینالسز اور بھرپور پلاننگ سے چلنے والی ٹیمیں ہیں، اب دیکھنا ہوگا کہ کون سی ٹیم بہتر پلان کے ساتھ میدان میں اترتی ہے۔

پشاور زلمی

پوائنٹس ٹیبل پر تیسرے نمبر پر پشاور زلمی کی ٹیم موجود ہے جس نے اس ٹورنامنٹ میں ابھی تک ملا جلا کھیل پیش کیا ہے۔ زلمی نے بھی ملتان سلطانز اور لاہور قلندرز کی طرح 5 میچ ہی جیتے ہیں لیکن نہ وہ ملتان سلطانز کی طرح بہترین کھیل پیش کرتے نظر آئے اور نہ ہی لاہور قلندرز کی طرح ناکام لگے۔

باؤلنگ

مختصر یہ کہ اس ٹیم میں مستقل مزاجی دیکھنے کو نہیں ملی۔ اس ٹیم کے باؤلر ایک میچ میں نہایت بہترین کارکردگی دکھا رہے ہوتے تو اگلے میچ میں ان کی ایسی پٹائی ہوتی کہ وہ باؤلر ہی نہ لگتے۔

ایک میچ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو 136 تک محدود کرنے والے باؤلر اگلے ہی میچ میں ملتان سلطانز کے خلاف سخت مشکل کا شکار تھے۔ ایک جانب یہ باؤلرز کراچی کنگز کو صرف 108 رنز تک محدود کرنے میں کامیاب رہے تو اگلے ہی میچ میں پاکستان سپر لیگ کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکور کھا گئے۔ محمد عرفان کے علاوہ تمام باؤلرز ایک دن بہترین باؤلنگ کرنے کے بعد اگلے ہی دن بدترین باؤلنگ کرتے نظر آئے۔ محمد عمران جس طرح کی باؤلنگ کراچی میں کرتے نظر آئے ویسی باؤلنگ ابوظہبی میں نہ کرسکے۔

وہاب ریاض پشاور زلمی کی جانب سے سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرچکے ہیں اور کراچی کنگز کے خلاف پچھلے میچ میں وہاب نے بابر اعظم کو صفر پر پویلین بھیج کر کراچی کنگز کی بیٹنگ کی تباہی کا آغاز کیا تھا۔ اگر پلے آف مقابلے میں بھی وہاب اپنی ٹیم کو ایسا آغاز دے سکیں تو یہ پشاور زلمی کے لیے جیت کا باعث بن سکتا ہے۔ محمد عرفان زیادہ وکٹیں تو حاصل نہیں کر پائے لیکن وہ بہت کفایتی باؤلنگ کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور 4 کفایتی اوورز پشاور زلمی کے لیے نہایت اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔ پشاور زلمی کی ٹیم اس ٹورنامنٹ میں باؤلنگ میں کافی تبدیلیاں کرتی رہی ہے، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس میچ میں وہ کس کمبینیشن کے ساتھ جانا پسند کرتے ہیں۔

اس مرحلے میں کپتان وہاب ریاض کی باؤلنگ زلمی کے لیے بہت اہم ثابت ہوسکتی ہے
اس مرحلے میں کپتان وہاب ریاض کی باؤلنگ زلمی کے لیے بہت اہم ثابت ہوسکتی ہے

بیٹنگ

بیٹنگ کی بات کریں تو پشاور زلمی کے لیے سب سے اچھی خبر کامران اکمل کی فارم میں واپسی ہے۔ کامران اکمل ہمیشہ سے پشاور زلمی کے بہترین بیٹسمین رہے ہیں لیکن اس بار وہ ٹورنامنٹ کا آغاز اچھا نہیں کرسکے تھے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف کامران اکمل کی فارم میں واپسی پشاور زلمی کے لیے بہت اہم ہے اور وہ اس کے بعد سے 3 اہم اننگز کھیل چکے ہیں۔

دوسری طرف پشاور زلمی کو ان کے اوپننگ پارٹنر کی تلاش ہے۔ حیدر علی کی ناکامیوں کے بعد حضرت اللہ زازائی کو آزمایا گیا جو کراچی کنگز کے خلاف تو خوب کھیلے لیکن اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف ایک بڑے ہدف کے تعاقب میں جہاں ان کی ہٹنگ کی سخت ضرورت تھی وہ جلد ہی پویلین لوٹ گئے اور حیدر علی کی جگہ آنے والے امام الحق بھی ناکام رہے۔

بیٹنگ میں پشاور زلمی کے لیے ایک اور اچھی بات شعیب ملک کا اچھا کھیلنا بھی ہے۔ شعیب ملک پچھلے 5 میچوں میں 2 بہترین نصف سنچریاں بنا چکے ہیں لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ باقی میچوں میں وہ مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ پشاور زلمی کے لیے پریشانی کی ایک اور بات ڈیوڈ ملر، فیبئن ایلن اور شرفین ردرفورڈ کی عدم دستیابی بھی ہے جو جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کھیلی جانے والی ٹی20 سیریز کے لیے کیریبیئن روانہ ہوچکے ہیں۔

کراچی کنگز

کراچی میں ہونے والے میچ ختم ہوئے تو کراچی کنگز کی ٹیم پوائنٹس ٹیبل پر سرِفہرست تھی لیکن ابوظہبی آمد کے بعد اگلے تینوں میچوں میں شکست کے بعد کراچی کنگز کو پلے آف مرحلے میں رسائی کے لیے نہ صرف اگلے دونوں میچ جیتنا تھے بلکہ لاہور قلندرز یا ملتان سلطانز کی شکست کی دعائیں بھی کرنا تھیں۔ حالات نے پلٹا کھایا اور نہ صرف کراچی کنگز نے اپنے دونوں میچوں میں فتح حاصل کی وہیں لاہور قلندرز کو مسلسل شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور نیٹ رن ریٹ پر کراچی کنگز نے پلے آف مرحلے کے لیے کوالیفائی کرلیا۔

لیکن کیا کراچی کنگز کی ٹیم ابوظہبی میں پشاور زلمی کا مقابلہ کر پائے گی؟

بیٹنگ

کراچی کنگز کی جانب سے بابر اعظم پی ایس ایل کے ایک سیزن میں 500 سے زائد رنز بنانے والے پہلے بیٹسمین بن گئے ہیں۔ ساتھ ہی بابر اعظم نے پاکستان سپر لیگ میں 2 ہزار رنز بنانے والے پہلے کھلاڑی بننے کا اعزاز بھی حاصل کرلیا ہے۔ بابر اچھا اسکور بنا رہے ہیں اور وہ ابوظہبی میں ہونے والے 5 میچوں میں 3 نصف سنچریاں بھی بنا چکے ہیں لیکن اس دوران نہ تو بابر اعظم اچھے اسٹرائیک ریٹ سے کھیل سکے ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھی بیٹسمینوں نے ان کا ساتھ دیا ہے۔

مزید پڑھیے: کراچی کنگز شکستوں کے بھنور میں کیوں گرفتار ہوگئی؟

جب یہ دونوں باتیں ایک ہی میچ میں ممکن ہوئیں تو پھر کراچی کنگز کے باؤلرز اور فیلڈرز نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ لاہور قلندرز کے خلاف عماد وسیم کی کچھ عمدہ ہٹس اور نور احمد کی عمدہ باؤلنگ اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف دانش عزیز کا کھیلا گیا ایک اوور کراچی کنگز کی فتح کا باعث بن گیا اور یوں کراچی کنگز نے پلے آف مرحلے کے لیے کوالیفائی کرلیا ورنہ امکان کافی کم لگ رہا تھا۔

شرجیل خان کراچی میں کافی تیز اسکور بناتے رہے لیکن ابوظہبی میں نہ وہ تیز کھیل پائے اور نہ ہی بڑا سکور بنا پائے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف میچ میں بھی 2 گیندوں پر 2 چھکے لگانے سے قبل شرجیل کا اسٹرائیک ریٹ 100 ہی تھا اور جب ان کی ہٹس لگنے لگی تو وہ پویلین سدھار گئے۔ کراچی کنگز کے لیے ایک اور مسئلہ مارٹن گپٹل کی بیٹنگ فارم ہے جو کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ ساتھ ہی محمد نبی کی جگہ آنے والے نجیب اللہ زادران بھی صرف ایک ہی میچ میں اچھا کھیل پیش کرسکے ہیں۔

پشاور زلمی کے خلاف بابر کے صفر پر آؤٹ ہوجانے کے بعد کراچی کنگز کے یہ بیٹسمین صرف 108 رنز ہی بنا سکے تھے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ کراچی کنگز کی کامیابی کے لیے بابر اعظم کو ایک بڑی اننگ کھیلنا ہوگی لیکن ساتھ ہی یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ یہ رنز اچھے اسٹرائیک ریٹ سے بنائے جائیں۔

باؤلنگ

محمد عامر اب تک کسی میچ میں کفایتی اور کسی میں کم کفایتی باؤلنگ کرتے نظر آئے ہیں لیکن کراچی کنگز کے لیے اہم مسئلہ یہی ہے کہ محمد عامر پچھلے 5 میچوں میں کوئی وکٹ حاصل نہیں کر پائے۔ مخالف بیٹسمین عامر کو سیٹ ہونے کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور نوجوان باؤلر کے خلاف تیز کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ اس میں زیادہ تر کامیاب بھی رہی ہیں۔

کنگز کی فتح کے لیے ضروری ہے کہ بابر اعظم عمدہ اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ لمبی اننگ کھیلیں
کنگز کی فتح کے لیے ضروری ہے کہ بابر اعظم عمدہ اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ لمبی اننگ کھیلیں

ارشد اقبال، محمد الیاس یا عباس آفریدی جیسے نوجوان باؤلرز ہوں یا وقاص مقصود اور عامر یامین جیسے تجربہ کار باؤلرز کراچی کنگز کی جانب سے محمد عامر کے سوا کسی کو مسلسل مواقع نہیں دیے گئے ہیں اور نہ ہی یہ باؤلرز ملنے والے مواقع سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

پھر کپتان عماد وسیم کی جانب سے اسپنرز کا استعمال بھی ہمیشہ سے ایک معمہ ہی رہا ہے۔ اپنے بہترین اسپنرز کو وہ کبھی باؤلنگ دینا بھول جاتے ہیں اور کبھی ان کا کوٹا پورا نہیں کروا پاتے اور اس بار اپنی باؤلنگ کے ساتھ بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ لیکن آخری لیگ میچ میں عماد اچھی کپتانی کا مظاہرہ کرتے نظر آئے اور اب انہیں ایک اور بہترین اسپنر نور احمد کی خدمات حاصل ہوگئی ہیں، دیکھتے ہیں عماد ان کا کیسے فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔

کراچی کنگز اور پشاور زلمی کے درمیان ہوئے لیگ میچوں میں دونوں ٹیموں کو ایک ایک فتح حاصل ہوئی ہے لیکن آخری میچ میں زلمی نے جس انداز میں کنگز کو شکست دی تھی وہ کافی بڑی شکست تھی۔ دونوں ٹیموں کے درمیان ایک سخت مقابلے کی توقع ہے جہاں دونوں ٹیموں میں سے فاتح کی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے اور اس کی وجہ دونوں ٹیموں کا گروپ مرحلے میں خلافِ توقع کھیل ہے۔ لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ پشاور زلمی کو کراچی کنگز پر پچھلے میچ میں ایک بڑی فتح کے بعد نفسیاتی برتری ضرور حاصل ہے۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024