کورونا وائرس کی قسم ڈیلٹا دنیا کے لیے خطرہ کیوں سمجھی جارہی ہے؟
کورونا وائرس کی بہت زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا جسے بی 1617.2 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دسمبر 2020 میں بھارت میں دریافت ہوئی تھی۔
اب یہ قسم بھارت اور برطانیہ میں سب سے زیادہ کیسز کا باعث بننے والی قسم ہے جبکہ امریکا میں امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہاں بھی جلد اس کا غلبہ ہوگا۔
ڈیلٹا قسم 6 ماہ کے دوران 80 ممالک تک پہنچ چکی ہے اور متعدد ممالک میں کیسز میں اضافے کے بعد سفری پابندیوں کا باعث بی ہے۔
اس نئی قسم کے پھیلاؤ کی زیادہ رفتار اور ویکسینز کی افادیت میں ممکنہ کمی کے باعث اس کے اثرات کے بارے میں جاننا اب بہت اہم ہوچکا ہے۔
اب تک ہم اس کے بارے میں جو جان چکے ہیں وہ درج ذیل ہے۔
یہ بہت تیزی سے پھیل سکتی ہے
جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ یہ اب تک 80 ممالک تک پہنچ چکی ہے اور برطانیہ میں یہ کیسز کی تعداد کے حوالے سے ایلفا قسم کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔
حالانکہ ایلفا قسم بھی بہت زیادہ متعدی ہے مگر ڈیلٹا قسم کے بارے میں اب تک کے ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ کورونا کی سابقہ اقسام سے 43 سے 90 فیصد تک زیادہ متعدی ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ایلفا کے مقابلے میں ڈیلٹا قسم کے پھیلاؤ کی رفتار 30 سے 100 فیصد زیادہ ہوسکتی ہے۔
محققین ابھی تک یہ نہیں جان سکے کہ یہ نئی قسم دیگر کے مقابلے میں اتنی زیادہ متعدی کیوں ہے، ان کے خیال میں اس سم کے پروٹین میں آنے والی تبدیلیوں نے اس کے لیے انسانی خلیات میں داخلہ آسان بنادیا ہے۔
ایک ابتدائی تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ اس قسم میں ایک ایسی میوٹٰشن ہوئی ہے جس سے ایک بار انسانی خلیات سے منسلک ہونے کے بعد وہ زیادہ بہتر طریقے سے مدغم ہوجاتی ہے۔
اگر یہ حقیقی معنوں میں خلیات سے آسانی سے مدغم ہوسکتی ہے تو یہ زیادہ سے زیادہ خلیات کو متاثر کرسکتی ہے اور مدافعتی نظام کو بے بس کرسکتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی چیف سائنسدان ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن کے مطابق ڈیلٹا قسم جلد دنیا بھر میں کورونا کی بالادست قسم بن سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ قسم ایلفا کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ متعدی ہے۔
کم عمر افراد کو زیادہ متاثر کرتی نظر آتی ہے
برطانیہ میں تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ 50 سال سے کم عمر افراد اس نئی قسم سے ڈھائی گنا زیادہ بیمار ہورہے ہیں۔
علامات کی شدت زیادہ سنگین ہے
ڈیلٹا سے بیمار ہونے والے افراد میں ہسپتال میں داخلے کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملا ہے کہ ایلفا کے مقابلے میں ڈیلٹا سے متاثر ہونے والے افراد میں ہسپتال کے داخلے کا خطرہ دگنا زیادہ ہوتا ہے۔
چین میں ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ ڈیلٹا سے متاثر افراد وبا کے آغاز میں کووڈ کا شکار ہونے والے افراد کے مقابلے میں زیادہ بیمار ہوتے ہیں، جبکہ ان کی حالت زیادہ تیزی سے بگڑتی ہے۔
بھارت بھر میں مریضوں کا علاج کرنے والے 6 ڈاکٹروں کے مطابق معدے میں درد، قے، متلی، کھانے کی اشتہا ختم ہونا، سننے کی حس سے محرومی اور جوڑوں میں درد کووڈ کی اس قسم کے مریضوں کو درپیش چند مسائل ہیں۔
بھارت میں اس قسم سے متاثر افراد میں بلیگ فنگس کے کیسز بھی بڑھ چکے ہیں جو اب تک 8 ہزار 800 کووڈ 19 کے مریضوں یا ان کو شکست دینے والے میں سامنے آئے ہیں۔
علامات بھی مختلف
برطانیہ کی زوئی کووڈ 19 سیمپم اسٹڈی ایپ کے ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں ڈیلٹا کے شکار مریضوں کی عام علامات بھی دیگر اقسام سے مختلف ہیں۔
اس ایپ کے ڈیٹا کے مطابق ڈیلٹا کے شکار افراد میں سردرد، گلے کی سوجن، ناک بہنا اور بخار سب سے عام علامات ہیں۔
کھانسی ان مریضوں میں زیادہ عام علامت نہیں جبکہ سونگھنے کی حس سے محرومی سرفہرست 10 عام علامات میں شامل ہی نہیں۔
محققین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈیلٹا کی علامات کو بگڑے ہوئے نزلے کی علامات سمجھا جاسکتا ہے اور لوگوں کی جانب سے کوئی احتیاط نہیں کی جائے گی، جس سے اس کے پھیلاؤ میں مزید مدد ملے گی۔
خود کو کیسے بچائیں؟
ایسا خیال تو کیا جارہا ہے کہ یہ نئی قسم ویکسینشن سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہے۔
مگر ابتدائی تحقیق کے مطابق فائر ویکسین کی 2 خوراکوں کے استعمال سے ڈیلٹا سم سے 79 فیصد تک تحفظ مل سکتا ہے اور بیمار ہونے پر علامات سے تحفظ کی شرح 88 فیصد تک ہوسکتی ہے۔
ایسٹرازینیکا ویکسین کی 2 خوراکوں سے ڈیلٹا سے بیمار ہوکر ہسپتال پہنچنے کا خطرہ 92 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔
اب تک ویکسنیشن والے کسی فرد میں اس نئی قسم سے ہلاکت کو رپورٹ نہیں کیا گیا۔