گزشتہ ایک دہائی میں جنگ سے نقل مکانی میں دگنا اضافہ ہوا، اقوام متحدہ
جینیوا: اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس وبا کے باوجود گزشتہ سال جنگ اور تشدد سے فرار ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ جاری ہے جس سے عالمی سطح پر نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد ایک دہائی قبل کے اعداد و شمار سے دگنی، 8 کروڑ 20 لاکھ ہوگئی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی مہاجرین کے لیے قائم کردہ ایجنسی کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019 میں پہلے ہی سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے تھے تاہم اب 2020 میں عالمی سطح پر نقل مکانی کے اعداد و شمار میں 30 لاکھ کے قریب اضافہ ہوا۔
اس رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی کہ شام، افغانستان، صومالیہ اور یمن جیسے بحرانوں نے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جب کہ ایتھوپیا اور موزمبیق جیسے مقامات پر تشدد کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔
حقیقت یہ ہے کہ نویں سال بھی تعداد میں اضافہ تباہ کن ہے کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں سے توقع کی جارہی تھی کہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد میں کمی آئے گی۔
مزید پڑھیں: ملائیشیا میں 13 سو سے زائد پناہ گزین گرفتار
یو این ایچ سی آر کے سربراہ فلپو گرانڈی نے بتایا ہے کہ 'اس وبائی بیماری کے دوران معیشتوں سمیت سب کچھ رک گیا تاہم جنگیں اور تنازع، تشدد اور امتیازی سلوک اور ظلم و ستم، ان تمام عوامل جن کی وجہ سے لوگ نکل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں، اب بھی جاری ہے'۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی کو معلوم ہوا ہے کہ 2020 کے آخر تک ریکارڈ 8 کروڑ 24 لاکھ افراد مہاجرین یا پناہ کے متلاشی کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں، یا اپنے ہی ملکوں میں نام نہاد داخلی نقل مکانی میں ہیں، 2011 میں یہ تعداد 4 کروڑ تھی۔
ناروے کی مہاجرین کونسل کے سربراہ جان ایگلینڈ کا کہنا ہے کہ 'آج کے عالمی سطح پر نقل مکانی کرنے والے افراد کے اعداد و شمار انسانیت کی ایک عظیم الشان ناکامی ہیں، دوسری جنگ عظیم کے مقابلے میں آج کے دور میں کہیں زیادہ لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حیرت انگیز اعدادوشمار کے باوجود عالمی رہنما ہماری نسل کی سب سے بڑی ہنگامی صورتحال کو حل کرنے میں ناکام ہیں'۔
یو این ایچ سی آر کی رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی کہ پوری دنیا سے بے گھر ہونے والے 42 فیصد 18 سال سے کم عمر ہیں۔
2020 کے آخر میں تقریباً 2 کروڑ 64 لاکھ افراد مہاجر کی حیثیت سے زندگی گزار رہے تھے جن میں 57 لاکھ فلسطینی بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پناہ گزین کو بھی امدادی پیکج کا حصہ بنانے پر پاکستان کی تعریف
تقریبا 39 لاکھ وینزویلاین بھی اپنی سرحدوں سے دور پناہ گزین سمجھے بغیر نقل مکانی کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ دنیا بھر میں 41 لاکھ افراد پناہ کا مطالبہ کررہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جہاں مہاجرین اور پناہ گزین دونوں کی تعداد 2019 سے نسبتاً فلیٹ رہی وہیں اپنے ہی ملک میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 2 کروڑ سے بڑھ کر 4 کروڑ 80 لاکھ ہوگئی ہے۔
2020 میں کووڈ 19 کے باعث کم از کم 164 ممالک نے اپنی سرحدیں بند کردیں اور ان میں سے نصف سے زیادہ پناہ گزینوں کو اپنی جان بچا کر فرار ہونے میں کوئی رعایت نہیں ملی۔
فلپو گرانڈی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 'بڑھتے ہوئے تنازع اور تشدد کی صورتحال میں کووڈ کی وجہ سے سرحدوں کو عبور کرنا مشکل ہو گیا ہے تاہم داخلی طور پر بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے'۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے جو 2019 کے مقابلے میں کچھ زیادہ تھے۔
ان میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جنگ کا سامنا کرنے والا ملک شام بھی شامل ہے جہاں ایک کروڑ 35 لاکھ افراد ملک کے اندر یا بیرون ملک نقل مکانی کرچکے ہیں۔ جو اس کی نصف سے زیادہ آبادی اور کُل عالمی نقل مکانی کا چھٹا حصہ ہے۔
دنیا کے دوتہائی سے زیادہ پناہ گزین کا تعلق صرف پانچ ممالک سے ہے جن میں شام، وینزویلا، افغانستان، جنوبی سوڈان اور میانمار شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش: روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں آتشزدگی، 7 افراد ہلاک
رپورٹ میں ایتھوپیا کے تشدد سے متاثرہ ٹگری خطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ متعدد نئے بحرانوں کی وجہ سے نقل مکانی دیکھی گئی ہے جس میں صرف 2020 کے آخری مہینوں میں سوڈان میں 54 ہزار سے زائد افراد علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
شمالی موزمبیق میں سیکڑوں ہزاروں افراد مہلک جہادی تشدد سے بھی بچ گئے ، جبکہ سیکڑوں ہزاروں افراد افریقہ کے مزاحمتی ساحل علاقے میں تازہ طور پر بے گھر ہوگئے۔
ترکی دنیا کی سب سے بڑی پناہ گزینوں کی آبادی کا میزبان ہے جہاں پناہ گزینوں کی مجموعی تعداد 37 لاکھ ہے، اس کے بعد کولمبیا 17 لاکھ، پاکستان اور یوگنڈا 14، 14 لاکھ اور جرمنی میں 12 لاکھ پناہ گزین رہتے ہیں۔
جہاں ضرورت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے وہیں بے گھر افراد کے مسئلے کا حل بھی کم ہورہا ہے۔
2020 کے دوران صرف 32 لاکھ آئی ڈی پیز اور صرف 2 لاکھ 51 ہزار مہاجرین اپنے گھروں کو واپس آئے جو 2019 کے مقابلے میں بالترتیب 40 اور 21 فیصد تک کم ہے۔