کوئٹہ اور ملتان: دو ایک جیسی ٹیمیں، دو مختلف کہانیاں!
ملتان سلطانز نے سب کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے میچ متحدہ عرب امارات منتقل ہونے کے بعد وہ اب تک ناقابلِ شکست رہے ہیں، بلکہ جس طرح اپنا آخری میچ جیتا ہے اس نے تو بڑے بڑوں کو حیران کردیا ہوگا۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف اہم ترین میچ میں ملتان نے ریکارڈ 110 رنز کے مارجن سے کامیابی حاصل کی ہے اور یوں نہ صرف 2 قیمتی پوائنٹس حاصل کیے بلکہ نیٹ رن ریٹ میں بھی زبردست اضافہ کیا ہے۔ ہم ملتان کی کامیابی، اس کے اہم کردار اور آئندہ کے امکانات پر بعد میں بات کریں گے لیکن پہلے ذرا کوئٹہ کا نوحہ پڑھ لیں۔
ایک ایسی ٹیم جس نے پاکستان سپر لیگ کے پہلے 4 سیزنز میں 3 مرتبہ فائنل کھیلا اور ایک بار چیمپئن بھی بنی، آخر زوال کی اس انتہا کو کیسے پہنچی کہ پی ایس ایل سیزن 6 میں اب تک 9 میں سے صرف 2 میچ جیت پائی ہے؟ اگر ہم پچھلے سیزن کے ’کارنامے‘ بھی ملا لیں تو 14 مقابلوں میں یہ صرف 3 کامیابیاں ہی بنتی ہیں۔ اس پر تو پوری قوم سراپا ’انکل کیوں‘ بنی ہوئی ہے کہ آخر ایسا کیوں؟
پی ایس ایل کے رواں سیزن کے ایسے مرحلے پر جہاں کوئٹہ کے سامنے کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں تھی، اسے ملتان سلطانز کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جی ہاں! پی ایس ایل کی تاریخ میں کبھی کوئی ٹیم 110 رنز کے مارجن سے نہیں ہاری۔ لیکن یہ ’اعزاز‘ سرفراز الیون کے نصیب میں آیا ہے جو 184 رنز کے ہدف کے تعاقب میں محض 73 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ ’بھرپور کوشش‘ کے باوجود 2017ء میں لاہور قلندرز کا بنایا گیا پی ایس ایل کے کم ترین اسکور 59 رنز کا ریکارڈ تو نہیں ٹوٹا، لیکن اتنی بدترین کارکردگی کے بعد کوئٹہ کے پی ایس ایل سے باہر ہونے کے بعد بہت سے سوالات ضرور اٹھ رہے ہیں۔
ان سوالات کے جواب ڈھونڈنے کے لیے ماضی کھنگالنا پڑے گا کہ آخر کوئٹہ نے ابتدائی 4 سیزنز میں کامیابیاں کیسے حاصل کیں؟ اگر ان ابتدائی مقابلوں پر نظر دوڑائی جائے تو صاف دکھائی دے گا کہ ان کی کامیابیوں میں کیون پیٹرسن، کمار سنگاکارا، شین واٹسن، گرانٹ ایلیٹ اور رائلی روسو جیسے غیر ملکی کھلاڑیوں کا کردار نمایاں تھا۔
بلاشبہ سرفراز احمد اور محمد نواز سمیت کئی مقامی اسٹارز بھی پیش پیش رہے لیکن وہ تو اب بھی موجود ہیں۔ اس لحاظ سے تو اسکواڈ میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے لیکن جو چیز بدلی ہے، وہ یہ ہے کہ ٹیم میں وہ غیر ملکی کھلاڑی نہیں ہیں جو پہلے تھے۔ کیون پیٹرسن اور شین واٹسن نے الوداع کہا تو گویا کوئٹہ کی کارکردگی پر بھی آخری ضرب لگ گئی۔
مزید پڑھیے: گلیڈی ایٹرز، جنہوں نے اپنا اصل کہیں کھو دیا!
گزشتہ سال تو چلیں پھر بھی نیٹ رن ریٹ کم ہونے کی وجہ سے اگلے مرحلے تک نہیں پہنچ سکے، اور کسی نہ کسی حد تک اس کارکردگی کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے لیکن اس سال یہ 73 رنز پر ڈھیر ہوجانے کا کیا بہانہ ہوگا؟ سیزن کا آغاز مسلسل 4 ناکامیوں سے ہوا اور پھر عرب امارات پہنچنے کے بعد بھی انہیں صرف ایک ہی کامیابی ملی ہے۔
بلاشبہ دونوں سال کورونا وائرس کی وجہ سے لیگ کا تسلسل ٹوٹ جانا بھی ایک وجہ ہوگا۔ اس نے دیگر کئی ٹیموں کو بھی نقصان پہنچایا لیکن کوئٹہ نے پہلے 4 سیزنز میں جس طرح کا کھیل پیش کیا تھا، اس کے بعد توقع تھی کہ وہ بھرپور 'کم بیک' کریں گے۔ لیکن وہ تو 5ویں سیزن میں 6 ٹیموں میں 5ویں نمبر پر آئے اور اس مرتبہ شروع ہی سے آخری نمبر پر پڑے ہیں اور اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے؟
اس کے برعکس ملتان سلطانز کی کارکردگی دیکھیں تو بالکل کوئٹہ کی طرح انہیں بھی رواں سال اپنے ابتدائی 5 میچوں میں صرف ایک کامیابی ملی۔ لیکن جیسے ہی امارات پہنچے، کمال بلکہ یوں کہیں کہ کمالات کردیے!
پہلے دفاعی چمپیئن کراچی کنگز کو ہرایا، پھر پشاور زلمی کو کراری شکست دی اور اب کوئٹہ کے ٹمٹماتے چراغ بھی بجھا دیے ہیں۔ ان 3 مسلسل کامیابیوں کی بدولت ملتان اب اگلے مرحلے کے لیے ایک مضبوط امیدوار بن چکا ہے کیونکہ اس کے 2 میچ ابھی باقی ہیں۔ گوکہ مقابلے تگڑے ہیں کہ جس میں انہیں 'زخمی شیر' لاہور قلندرز اور 'ٹاپ آف دی ٹیبل' اسلام آباد یونائیٹڈ کا مقابلہ کرنا ہے لیکن بہتر نیٹ رن ریٹ اور مسلسل 3 کامیابیوں سے ملنے والا حوصلہ ان کے امکانات کو روشن کر رہا ہے۔
مزید پڑھیے: پی ایس ایل سیزن 6: تو ایک بار پھر اگر، مگر اور رن ریٹ کا کھیل شروع
صرف حالیہ مقابلوں میں ملتان کے کھلاڑیوں کی باڈی لینگویج ہی دیکھ لیں، واضح نظر آئے گا کہ ہر کھلاڑی اپنا حصہ بھرپور طریقے سے ادا کرنے کے لیے بے تاب ہے اور جان مارتا ہوا نظر آرہا ہے۔
بیٹنگ میں کپتان رضوان احمد اور صہیب مقصود کے بعد بالآخر شان مسعود کے ہاتھ بھی کھل گئے ہیں اور کوئٹہ کے خلاف انہوں نے ایک بہترین اننگز کھیل کر ’مردِ میدان‘ کا اعزاز پایا۔ باؤلنگ میں تو ویسے ہی ملتانی واقعی ’سلطان‘ ہیں، ان کے عمران خان، شاہنواز دہانی اور عمران طاہر سبھی خوب کارکردگی دکھا رہے ہیں۔
ملتان سلطانز کی کامیابیوں سے پوائنٹس ٹیبل بہت ہی دلچسپ ہوگیا ہے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ 8 میچوں میں 6 فتوحات کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے جبکہ پشاور زلمی، 10 پوائنٹس اور بہتر نیٹ رن ریٹ کی وجہ سے دوسرے نمبر پر ہے، لیکن اس کا میچ صرف ایک ہی بچا ہے۔ 10 پوائنٹس ہی لاہور قلندرز کے بھی ہیں، لیکن ان کے ابھی دو مقابلے بچے ہوئے ہیں یعنی پشاور کے مقابلے میں ان کی پوزیشن ذرا بہتر ہے۔ ملتان سلطانز اور کراچی کنگز نے بھی 2، 2 میچ کھیلنے ہیں لیکن ملتان ابھی سے 8 پوائنٹس کے ساتھ آگے ہے جبکہ کراچی کی 8 میچوں میں صرف 3 فتوحات کی وجہ سے محض 6 پوائنٹس ہیں۔ کوئٹہ 9 مقابلوں میں صرف 4 پوائنٹس کے ساتھ آخری نمبر پر ہے۔
تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوائے کوئٹہ کے باقی تمام ٹیموں کے امکانات موجود ہیں، کسی کے بہت زیادہ، کسی کے کچھ کم۔ لیکن اگلے 5 میچ یہ فیصلہ کردیں گے کہ کون کوئٹہ کے ساتھ گھر جائے گا۔ باقی ماندہ مقابلوں میں پہلے اسلام آباد کو پشاور کے ساتھ کھیلنا ہے۔ زلمی کا یہ آخری مقابلہ ہے اس لیے وہ جیت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے کیونکہ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے اگلے مرحلے تک پہنچنے کے امکانات کسی دوسری ٹیم کے نتیجے پر انحصار کریں۔
پھر اس نازک مرحلے پر ’بڑا مقابلہ‘ کراچی اور لاہور کے درمیان ہوگا، جس میں کراچی کو نہ صرف کھیلنا بلکہ جیتنا بھی ہے کیونکہ ان کے پاس اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بعد قلندرز اگلا میچ ’آل پنجاب ڈربی‘ میں ملتان سے کھیلیں گے جبکہ کراچی اپنا آخری میچ کوئٹہ سے کھیلے گا۔ یہ میچ کوئٹہ کے لیے تو کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتا لیکن کراچی کے لیے یہ 'زندگی اور موت' کے برابر ہوگا۔ سیزن کے پہلے مرحلے کا آخری مقابلہ اسلام آباد اور ملتان کے مابین کھیلا جائے گا، جو ہوسکتا ہے کہ ملتان کے لیے ’کرو یا مرو‘ کا معاملہ بن جائے۔ اس لیے دل تھام کے بیٹھیے کہ ابھی بہت کچھ باقی ہے!