دوران حمل فضائی آلودگی کا سامنا ہونے سے بچوں میں موٹاپے کا خطرہ
مئی 2021 میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ دوران حمل فضائی آلودگی کا سامنا کرنے والی خواتین کے بچوں میں دمہ جیسے تکلیف دہ مرض تشکیل پانے کا خطرہ بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔
اب انکشاف ہوا ہے کہ فضائی آلودگی کی زیادہ شرح والے علاقوں میں رہنے والی حاملہ خواتین کے بچوں میں موٹاپے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
کولوراڈو یونیورسٹی بولڈر کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ فضائی آلودگی کی زیادہ مقدار کا سامنا کرنے والی خواتین کے بچے پیدائش کے ابتدائی مہینوں میں غیرمعمولی تیزی سے نشوونما پاتاے ہیں، جس سے اضافی چربی کے نتیجے میں بعد کی زندگی میں موٹاپے اور اس سے متعلقہ امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق میں پہلی بار عندیہ دیا گیا کہ ناقص فضائی معیار موٹاپے کی وبا کو بڑھانے کا حصہ ہوسکتا ہے۔
اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا تھا کہ تمباکو نوشی کی عادی یا فضائی آلودگی کا بہت زیادہ سامنا کرنے والی حاملہ خواتین میں بچوں کے کم پیدائشی وزن کا خطرہ ہوتا ہے، تاہم زندگی کے پہلے سال میں جسمانی وزن تیزی سے بڑھتا ہے۔
بچپن میں جسمانی وزن میں تیزی سے اضافہ بچن یا بلوغت کے آغاز میں ذیابیطس، امراض قلب اور دیگر مسائل کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
نئی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ دوران حمل یا پیدائش کے فوری بعد کا عرصہ وہ اہم ترین مدت ہے جب منفی اثرات سے بچے کی بعد کی زندگی کے متعدد مسائل کا پروگرام طے پاجاتا ہے۔
بچے کی نشوونما پر آلودگی کے اثرات کا معائنہ کرنے کے لیے محققین نے 123 ماؤں۔ بچوں پر جاری ایک ٹرائل کا جائزہ لیا۔
ان میں سے ایک تہائی خواتین کا وزن حمل سے قبل معمول کا تھا، ایک تہائی زیادہ جسمانی وزن جبکہ ایک تہائی موٹاپے کی شکار تھیں۔
بعد ازان محققین نے امریکی ماحولیاتی ایجنسی کے فضائی معیار کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی اور دیکھا کہ ان خواتین کے علاقوں میں یہ شرح کیا تھی۔
محققین نے دریافت کیا کہ فضائی آلودگی کی زیادہ شرح کا سامنا کرنے والی خواتین کے بچوں کی جسمانی چربی ابتدائی 6 ماہ بعد کے دورران نمایاں حد تک بڑھ گئی۔
کچھ کیسز میں آلودگی کے اثرات لڑکوں اور لڑکیوں پر مختلف نظر آئے۔
مثال کے طور پر لڑکیوں کی کمر کے گرد چربی زیادہ اکھٹی ہوئی جبکہ لڑکوں کے قد کی نشوونما سست ہوگئی اور پیٹ اور کمر کے گرد چربی کا زیادہ ذخیرہ ہونے لگا۔
اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل انوائرمنٹل ہیلتھ میں شائع ہوئے۔