پارلیمانی تشدد کا آنکھوں دیکھا حال
قومی اسمبلی میں 15 جون کو جو کچھ ہوا، اس پر آئین ساز ادارے کے منتخب نمائندے شرمندہ ہوں یا نہ ہوں لیکن ان ووٹروں کے سر شرم سے ضرور جھک گئے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ سیاست استدلال کے ساتھ مسائل کا حل نکالنے کا ذریعہ ہے۔
جب سیاست میں تشدد شامل ہوجائے تو وہ لعنت بن جاتی ہے۔ 7 دہائیوں سے سیاست اور سیاستدانوں کو خراب کہنے والوں کے مؤقف کی جو پذیرائی ہوئی، اس پر حکومت یقیناً 'مبارک باد' کی مستحق ہے۔
ابھی قادر مندوخیل اور فردوس آپا کے ٹی وی پروگرام میں جھگڑے کا تذکرہ ختم ہی نہ ہوا تھا کہ قومی اسمبلی نے نہ صرف موجودہ حکومت بلکہ پاکستان کی ملامتی تاریخ میں ایک نئے سنگِ میل کا اضافہ کردیا۔
15 جون کی ہنگامہ آرائی کی ویڈیوز سوشل میڈیا کے مختلف فورمز کے ذریعے پورے ملک میں وائرل ہوچکی ہیں۔ بچے اپنے والدین سے سوال کررہے ہیں، اور والدین، جن کا کسی نہ کسی جماعت کی طرف جھکاؤ ہے وہ اسی حساب سے جواب دے رہے ہیں، لیکن بات گھوم پھر کر وہیں آکر رکتی ہے کہ کیا ملک کے منتخب نمائندے ایسے ہوتے ہیں؟
پاکستان میں بجٹ اجلاس کی یہی ریت رہی ہے، عوامی نمائندوں کو شاید ہی کبھی بجٹ کی 10 کلو کے قریب بھاری بھرکم دستاویزات پڑھنے کی توفیق ہوئی ہوگی، اور اس میں سے اپوزیشن کے ارکان حکومتی عیب اور حکومتی ارکان اچھائیاں نکال کر بحث میں حصہ لیتے ہوں گے۔ 342 کے ایوان میں سے 142 ارکان ہی ممکنہ طور پر بجٹ تقریر پڑھتے ہوں، باقیوں کا بجٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔
عام ارکان، جنہیں پارلیمانی زبان میں بیک بینچرز کہا جاتا ہے، ان کے لیے بجٹ میں صرف ایک ہی کشش کی بات ہوتی ہے اور وہ یہ کہ بجٹ اجلاس میں 40 گھنٹے کی بحث میں انہیں 10 سے 15 منٹ بات کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ وہ اپنے حلقے کے مسائل بیان کرتے ہیں تاکہ اپنے حلقے کے عوام کو بتاسکیں کہ وہ اگرچہ عملی طور پر نہ سہی لیکن زبانی طور پر سرگرم عمل ہیں۔ ووٹرز بھی اتنے مجبور اور سادہ ہوتے ہیں کہ خوش ہوجاتے ہیں کہ کام ہو نہ ہو لیکن نمائندے نے کم از کم قومی اسمبلی میں ان کے مسائل کو اٹھایا تو۔
15 جون کی ہنگامہ آرائی پر مزید بات کرنے سے پہلے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ معاملہ گالم گلوچ سے ہوتا ہوا ہاتھا پائی اور اس کے بعد باجماعت حملے تک کیسے پہنچا؟
11 جون کو جب وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے بجٹ پیش کیا تو ان کی تقریر کے آغاز سے ہی اپوزیشن نے احتجاج شروع کردیا تھا۔
وزیرِاعظم نے مارچ میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد اب جاکر ایوان کو رونق بخشی تھی۔ شوکت ترین سے تو اپوزیشن کا ویسے ہی کوئی لینا دینا نہیں تھا، نشانے پر تو صرف وزیرِاعظم ہی تھے اسی لیے تمام نعرے بھی عمران خان کے خلاف لگتے رہے۔ لیکن ڈیڑھ گھنٹے کے اس اجلاس نے وزیرِاعظم کا موڈ بدل کر رکھ دیا۔
حسبِ روایت بجٹ پر بحث کا آغاز قائدِ حزب اختلاف کرتے ہیں اس لیے جب 14 جون کو قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بجٹ پر بحث کا آغاز کیا تو حکومتی وزرا کی رہنمائی میں تمام حکومتی ارکان اپنی نشستوں سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور شہباز شریف کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔ شہباز شریف، اسپیکر کی جانب سے بحث کی دعوت دینے کے صرف 30 سیکنڈ پہلے ہی ایوان کے اندر داخل ہوئے تھے، اتفاق سے جیسے ہی وہ اپنی نشست تک پہنچے تو اسپیکر نے ان کا نام پکارا، یوں پھر انہوں نے اپنی نشست پر بیٹھے بغیر ہی تقریر کا آغاز کردیا۔
حکومتی ارکان کا شور بڑھتا گیا اور نعرے بازی میں شدت آتی رہی۔ حکومتی رکن عبدالمجید نیازی جو بجٹ اجلاس کے پہلے روز بلاول بھٹو زرداری پر جملے کس رہے تھے، وہ اس بار علی امین گنڈاپور کے ساتھ آواز میں آواز ملاتے نظر آئے، 'اوئے، اوئے' اور 'ٹی ٹی' کے نعرے لگاتے رہے۔ اس شور شرابے کے دوران اسپیکر نے پہلے تو حکومتی ارکان کو خاموش رہنے کی ہدایت کی لیکن جب ناکام رہے تو اجلاس کی کارروائی 20 منٹ کے لیے معطل کردی۔ اسپیکر اپنے چیمبر کی طرف روانہ ہوئے تو اپوزیشن لیڈر کے باہر نکلتے وقت بھی حکومتی ارکان اسی شدت کے ساتھ نعرے بلند کرتے رہے، جواباً مسلم لیگ (ن) کے ارکان بھی نعرے بازی کرنے لگے۔
ذرائع کے مطابق یہی واقعہ ہنگامے کی جڑ تھا، جس کا منطقی نتیجہ دوسرے روز یعنی 15 جون کو سامنے آیا۔
قائدِ حزب اختلاف اپنے چیمبر میں چلے گئے۔ پھر اسپیکر کے پیغام پر کچھ دیر بعد اپوزیشن اور حکومتی جماعتوں کے پارلیمانی رہنما اسد قیصر کے چیمبر میں جمع تھے۔ پہلا اجلاس ناکام ہوا تو کچھ دیر بعد دوسرا اجلاس بلایا گیا۔ بہرحال اس بار کچھ معاملات طے ہوگئے۔
اس اجلاس میں موجود ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طے یہ ہوا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان اپنے صدر شہباز شریف سے اس بات کی ضمانت لائیں گے کہ جب وزیرِاعظم ایوان میں تقریر کریں گے تو اپوزیشن اس وقت ہنگامہ آرائی نہیں کرے گی، جبکہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو یہ ٹاسک سونپا گیا کہ وہ جاکر وزیرِاعظم سے بات کریں، اور یہ ضمانت لے آئیں کہ وہ اپنے ارکان کو ہدایت کریں گے کہ جب اپوزیشن لیڈر بولیں گے تو ان کو خاموشی سے سنا جائے گا۔ معاملات طے ہونے کے بعد اسپیکر ایوان میں آئے اور اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کرکے چلے گئے۔
15 جون کو پارلیمنٹ ہاؤس میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس تھا، ذرائع کہتے ہیں کہ لیگی ارکان نے باہمی مشاورت کے بعد یہ اصولی فیصلہ کیا کہ 13، 13 ارکان پر مشتمل 6 گروپ تشکیل دیے جائیں گے تاکہ جو بھی حکومتی وزیر یا رکن بجٹ پر بات کرے تو اس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ مسلسل جاری رہ سکے۔
ایک لیگی رکن نے مجھے بتایا کہ 'مسلسل احتجاج کے باعث گلہ خشک ہونے سے نعروں میں دم نہیں رہتا، اس لیے الگ الگ گروپ بنانے کی تجویز پیش کی گئی'۔ لیکن لیگی ارکان کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب شہباز شریف نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔ شہباز شریف سمجھ رہے تھے کہ 15 جون کو وہ بجٹ پر چند گھنٹوں پر محیط ایک طویل تقریر کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، لیکن ان کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔
15 جون کو صورتحال گزشتہ روز سے بھی زیادہ ہنگامہ خیز معلوم ہو رہی تھی۔ مشیرِ احتساب شہزاد اکبر سمیت کابینہ کے سنجیدہ ارکان بھی ڈیسک بجانے میں آگے آگے تھے۔ شہباز شریف نے اپنی تقریر جاری رکھی، فواد چوہدری اور دیگر وزرا بیک بینچرز ارکان کو آگے کی طرف آنے کے اشارے کرتے رہے۔ اسپیکر کی پریشانی دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ حالات ان کے بس سے باہر ہیں۔
باخبر حلقے بتاتے ہیں کہ 14 جون کو وزیرِاعظم عمران خان اپوزیشن لیڈر کی تقریر پر سخت ناراض تھے۔ ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ وزیرِاعظم نے کہا کہ 'یہ لوگ ضمانت پر آتے ہیں اور ہمیں بھاشن دیتے ہیں!'۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے بہت کچھ کہا۔
وزیرِاعظم کا یہ واضح پیغام ہی اس گھمسان کا سبب بنا۔ اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے ارکان اس طرح لڑ رہے تھے جیسے کالج، یونیورسٹی یا سیاسی جلسوں میں غیر سنجیدہ مشتعل نوجوان پورے ماحول کو برباد کرنے کے لیے کود جاتے ہیں۔ حکومتی جماعت سے وابستہ کراچی کے کچھ ارکان بھی جھگڑوں میں خود کو پیچھے نہیں رکھتے اس بار ان کا جوش بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
اسپیکر کی ہدایت پر سیکیورٹی افسران و اہلکار حکومتی اور اپوزیشن بینچوں کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہوئے، لیکن وہ کیا کرتے، بے چارے جو تھے، انہیں کسی رکن کو 'تو' کہنے تک کا اختیار نہیں تھا، وہ بپھرے ہوئے حکومتی یا اپوزیشن ارکان کو کس طرح روک پاتے۔ دوسری جانب ارکان کی جانب سے ہدایات نہ ماننے پر اب اسپیکر کا زور انہی سیکیورٹی والوں کی طرف تھا۔
حکومتی رکن فہیم خان تو سیکیورٹی اہلکاروں کے کندھے پھلانگ کر شہباز شریف کو جھپٹنا چاہتے تھے لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ دیگر حکومتی ارکان نے بھی سیکیورٹی اہلکاروں کی انسانی دیوار کو گرانے کے لیے دھکم پیل شروع کردی تھی۔ اسی دوران مسلم لیگ (ن) والے 'گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو'، 'سوٹا ڈنڈے کی سرکار نہیں چلے گی' اور اس کے ساتھ ساتھ وزیرِاعظم کے خلاف نامناسب نعرے بھی بلند کرتے رہے۔
وزیرِاعظم کے معاون خصوصی علی نواز اعوان بھی بجٹ کاپیاں دوسری جانب اچھال کر اپوزیشن ارکان کی تواضع میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے۔ گالیاں اضافی آئٹم تھا۔ مہمانوں کی گیلری میں افسران اور پریس گیلری میں صحافی صورتحال پر تبصرے کر رہے تھے اور 'یہ دیکھو، یہ گئی، یہ لگی' کی صدائیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ جب رانا ثنا اللہ کو ایک بھاری بک لگی تو اس تماشے میں محو ایک صحافی کے منہ سے بے ساختہ 'ٹھا' کا لفظ نکلا۔
ایک عرصے سے حکمراں جماعت کی بِیٹ کور کرنے والے ایک صحافی پریس گیلری میں خوش و خرم دکھائی دیے، جب وزرا اور حکومتی ارکان کورس (chorus) کے انداز میں بجٹ بکس ڈیسک پر ترنم کے ساتھ مارتے تو وہ بھی تال سے تال ملاتے ہوئے اپنا پیر زمین پر ہلکے سے مارتے۔ یہ یکجہتی کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے؟
زبردست شور شرابے، دھکم پیل اور نعرے بازی کا سلسلہ پوری شدت سے جاری رہا تو اسپیکر 10منٹ کے لیے اجلاس معطل کرنے کا اعلان کرکے چلے گئے۔ پھر چند لمحوں میں اللہ تعالیٰ کے 99 ناموں کے نیچے مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف کے ارکان دست و گریباں تھے، ارکان کے لیے لاکھوں روپے کی لاگت سے چھپنے والی بھاری بھرکم بجٹ کتابیں ہوا میں اچھالی جا رہی تھیں، ہر کوئی خود کو بچاتا اور اپنی طرف پھینکی گئی کتاب کو دوبارہ اسی طرف پھینک دیتا جہاں سے کتاب اچھالی گئی ہوتی۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے مظاہرین شیلنگ کے دوران گیس کے گولے اٹھا کر واپس سیکیورٹی اہلکاروں کی طرف پھینکتے ہیں۔
ابتدا حکومتی بینچوں سے ہوئی، سیکیورٹی اہلکار و افسران کی تو شامت آگئی تھی، وہ کسی کو پیچھے دھکیلنے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رکھتے تھے۔ ارکان اور بہت سارے دیگر لوگوں کو اندرونی چوٹیں آئیں، پارلیمانی سیکریٹری ملیکہ بخاری کو بجٹ کی بھاری کتاب آنکھ کے قریب جا لگی۔کہیں سے چیخنے کی تو کہیں سے توبہ توبہ کی آوازیں آرہی تھی۔ محسن داوڑ، جن کی بات کا کوئی ٹکر کسی ٹی وی چینل پر نہیں چلتا وہ دونوں فریقین کو روکنے کی کوشش کرتے رہے اور خود کو بچاتے بھی رہے۔ جب حملے تواتر کے ساتھ جاری تھے تو مہمانوں کی گیلری میں موجود افسران اور دیگر لوگ اپنی جان بچانے کے لیے باہر نکل گئے۔
اس سارے تماشے کا کم از کم ان غیر سیاسی قوتوں کو تو ایک فائدہ ضرور پہنچا جن کا روزِ اوّل سے یہ مؤقف رہا ہے کہ سیاست تو ہوتی ہی خراب ہے، ملک کا بیڑا غرق سیاست نے ہی کیا ہے، سیاستدان اچھے لوگ نہیں ہوتے، دنیا بھر میں اس واقعے کی وائرل ہونے والی ویڈیوز نے اس رائے کو بہت ہی زیادہ تقویت پہنچائی ہے۔
سیاستدانوں کے خلاف میڈیا مہم کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن عمران خان ایک تیسری قوت کے طور پر جب سامنے آئے تو انہوں نے ملک کی باقی 2 بڑی قوتوں کو چور اور ڈاکو ثابت کرنے کے لیے صرف اپوزیشن میں رہ کر کوششیں نہیں کیں، بلکہ اقتدار ملنے کے بعد بھی وہ اپنے اسی مؤقف پر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن 15 جون کے واقعے نے غیر سیاسی قوتوں کے مؤقف کو جلا ضرور بخشی ہے۔
قومی اسمبلی میں اس ہنگامہ آرائی نے ان لوگوں کو شرمسار کیا ہے جو پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی پر سیاسی ایمان رکھتے ہیں اور شدید گرمی یا سردی کی تکلیف میں قطار میں کھڑے ہوکر اپنے نمائندوں کو الیکشن کے روز ووٹ دینے جاتے ہیں۔
اس عام آدمی کو کیسے یقین دلایا جائے گا کہ ان کے نمائندے اچھے لوگ ہیں؟ ابھی چند ہی دن پہلے کی بات ہے کہ ایک مذہبی تنظیم کے کارکنوں نے جس طرح ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تو اس پر پورا ملک چیخ رہا تھا کہ ریاست کیا کر رہی ہے؟ اب جب آئین سازوں نے اپنے ہی ادارے، جسے ملک کے تمام اداروں کی ماں کہا جاتا ہے، اس کا جو حشر کیا اس پر انہیں افسوس نہیں الٹا فخر ہے، مگر یاد رکھیے کہ یہ سراسر جمہوریت اور جمہور کی توہین ہے۔
تبصرے (3) بند ہیں