کرشمے کی منتظر منچھر جھیل
60 سالہ مولا بخش اپنے والد کی طرح ایک ماہی گیر ہیں، وہ ان دنوں کو یاد کرتے ہیں جب منچھر مچھلیوں سے بھرپور تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ، 'میرے والد اتنی بڑی تعداد میں مچھلیاں پکڑ کر لاتے تھے کہ ہمیں دوسرے لوگوں میں تقسیم کرنی پڑجاتی تھیں۔ 30 سے زائد اقسام کی مچھلیاں جھیل میں آبی پودے کھا کر زندہ رہتی تھیں کیونکہ ان دنوں تازہ پانی کا بہاؤ بہت زیادہ تھا‘۔
پاکستان فشرفوک فورم سے وابستہ مصطفیٰ میرانی اسی علاقے میں ایک رہائشی کشتی پر پلے بڑھے ہیں۔ وہ بھی مولا بخش سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ، 'لوگوں کے پاس مویشی جانوروں کے ریوڑ ہوا کرتے تھے اور وہ جھیل کے گرد و نواح میں زرعی زمینوں پر موسمی فصلیں اگاتے تھے‘۔ وہ اس خوشحالی کا ذکر کرتے ہیں جو یہاں بسنے والوں کو میسر تھی۔
مگر اب وہ دن ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔
کیرتھر رینج کی گود میں واقع منچھر جھیل کا خاموش پانی دیکھنے والوں کو آج بھی بظاہر یہ تاثر دے سکتا ہے کہ حالات اب بھی ویسے ہی ہیں۔ مگر یہ خاموش پانی زہریلا ہوچکا ہے اور پینے کے قابل نہیں رہا۔
اپنے بزرگوں کی طرح ماہی گیر آج بھی موٹر پر چلنے والی کشتیوں پر سوار ہوکر اچھے شکار کی امید لیے پانی پر اترتے ہیں۔ مگر مولا بخش اور ان کے ساتھی ماہی اس تعداد میں مچھلیوں کے شکار کا خواب میں تصور بھی نہیں کرسکتے جو ان کے والد اور بزرگ کیا کرتے تھے۔
جب ماحولیاتی نظام میں بگاڑ پیدا نہیں ہوا تھا تب صدیوں تک یہی جھیل مہانوں (ماہی گیروں) اور ان کے خاندانوں کے لیے واحد ذریعہ معاش ہوا کرتی تھی۔
گھنے آبی پودوں اور جھیل کو ملنے والے تازہ پانی کی فراوانی کی وجہ سے مچھلیوں کی بہتات ہوا کرتی تھی جن کے شکار سے ماہی گیروں کو اچھی آمدنی ہوجاتی اور وہ خوشحال زندگی گزارتے تھے۔ منچھر کے کنارے اب بھی ماہی گیر خاندان رہائشی کشتیوں پر رہتے ہیں مگر ان کی زندگی کے حالات ان سے پہلے والوں کے حالات سے کافی مختلف ہیں۔
میرانی کہتے ہیں کہ، '1994ء میں منچھر جھیل میں سالانہ 2 ہزار 300 ٹن مچھلیوں کی پیداوار ہوتی تھی، مگر اب صرف کچھ ہزار من ہی مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں کیونکہ زہریلے پانی کی وجہ سے ان آبی پودوں کو نقصان پہنچا ہے جن کو کھاکر مچھلیاں زندہ رہتی ہیں'۔
حالات کی تبدیلی نے نہ صرف مچھلیوں بلکہ ان ماہی گیر آبادیوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کردی ہیں جن کی زندگی کا گزارا نسل در نسل سے انہی مچھلیوں پر رہا ہے۔
جھیل کے آلودہ پانی نے ماہی گیروں کے کئی خاندانوں کو مختلف شہروں میں دہاڑی دار مزدور بننے اور ملک کے دیگر علاقوں میں نقل مکانی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
مزید برآں، چونکہ پانی زہریلا ہے اس لیے جھیل کے کناروں پر رہنے والے افراد پینے کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں جس کا خرچہ ان کی جیب پر بھاری پڑتا ہے اور کم ہی پانی خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ طویل پیدل فاصلہ طے کرکے صاف پانی کے پلانٹ سے پلاسٹک کے گیلن میں پانی بھر کر لاتے ہیں۔
صوبائی پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ کے زیرِ نگرانی چلنے والے یہ پلانٹ بار بار غیر فعال ہوجاتے ہیں۔ عطا محمد نامی ایک ماہی گیر نے بتایا کہ 'چونکہ مولا بخش کالونی میں واقع ہمارے علاقے کا آر او پلانٹ صرف 6 ماہ تک ہی فعال رہتا ہے اس لیے ہمیں پینے کا پانی پیسوں سے خریدنا پڑتا ہے'۔
آج ہم منچھر جھیل کی جو بگڑی صورتحال دیکھ رہے ہیں اس بگاڑ کی ابتدا دہائیوں پہلے ہی ہوگئی تھی۔ ماہی گیر نہ صرف ایک عرصے سے خطرات سے آگاہ کرتے چلے آرہے ہیں بلکہ مسائل کے 'حل' بھی تجویز کیے گئے اور حکومت ان منصوبوں پر بڑی بڑی رقوم خرچ بھی کرچکی ہے، مگر جھیل کی صورتحال بد سے بدتر ہی ہوئی ہے۔
ماہی گیر دہائیوں سے جھیل کی تباہی دیکھتے آرہے ہیں۔ 1930ء کی دہائی میں سکھر اور 1960ء کی دہائی میں گڈو بیراجوں کی تعمیر کے بعد بیراجی علاقوں میں ہونے والی دھان اور دیگر فصلوں کی زبردست کاشتکاری کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس کاشتکاری کے بعد آلودہ زرعی پانی کو ٹھکانے لگانے کے لیے نکاس آب کا انتظام ضروری ہوگیا تھا۔
پھر بالائی سندھ میں نکاس آب کے لیے چھوٹے بڑے نالے بنائے گئے، جس کے بعد کھاد اور کیڑے مار دواؤں میں شامل کیمیکل بھی منچھر جھیل تک بہہ کر آنے لگے۔
یہ تو صرف شروعات ہی تھی۔ جامشورو، جو کہ اتفاقاً وزیرِ اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کا حلقہ ہے، وہاں واقع یہ جھیل خراب منصوبہ بندی کی ایک طویل تاریخ کی گواہ ہے۔
ابتدائی طور پر تو زرعی آلودہ پانی کو دریائے سندھ میں خارج کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جو ایک بڑے سانحے کو دعوت دینے جیسا عمل ہوتا، لہٰذا اس خیال کو ترک کردیا گیا۔ مگر مین نارا ویلی ڈرین (ایم این وی ڈی) اور نامکمل رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین II میں آلودہ پانی کے اخراج کے باعث ماحولیاتی نظام میں بگاڑ کو روکا نہ جاسکا (ستم ظریفی دیکھیے کہ آر بی او ڈی-II کے نکاس آب کے منصوبے کا مقصد منچھر کا تحفط تھا کیونکہ یہ نالہ بالائی سندھ اور بلوچستان سے آنے والے آلودہ پانی کو سیدھا بحیرہ عرب تک لے جانے کے لیے بنایا گیا تھا)۔
ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ ایم این وی ڈی (جسے آر بی او ڈی-I بھی کہا جاتا ہے) منچھر جھیل کے لیے کبھی تازہ پانی کا ذریعہ ہوا کرتا تھا مگر 1990ء کی دہائی میں واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے ایم این وی ڈی کے پیٹ کے ماڈل میں تبدیلی کی جس کے باعث آلودہ پانی جھیل میں داخل ہونا شروع ہوگیا۔ نالے کے پانی کا رخ مسلسل جھیل کی طرف کرنے کے باعث منچھر جھیل میں زہریلے پانی کا بہاؤ جاری ہے۔
گزشتہ سال مختصر وقت کے لیے جھیل کو زیادہ تازہ پانی نصیب ہوا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ منچھر کو تازہ پانی فراہم کرنے والے ایک اہم ذریعے نئے گاج میں مون سون کے دوران خلافِ معمول پانی کا بلند بہاؤ دیکھنے کو ملا تھا۔ اس وقت منچھر کے ایگزیکیٹو انجینیئر مہیشن کمار کے مطابق گزشتہ سال محض چند دنوں میں ہی جھیل کی سطح کئی فٹ تک بلند ہوگئی تھی۔ مگر بدقسمتی سے ایم این وی ڈی سے آلودہ پانی کے بلا روک بہاؤ کی وجہ سے یہ خوش خبری جلد ہی دفن ہوگئی۔
آر بی او ڈی بھی جھیل کی تباہی میں برابر کا حصہ دار ہے۔ آر بی او ڈی-II کا منصوبہ 2 دہائیوں سے تاخیر کا شکار رہا ہے، دوسری طرف واپڈا کی جانب سے 2 معاون نالوں یعنی آر بی او ڈی-I اور آر بی او ڈی -III کے ساتھ اس کے کنیکشن کا تقریباً کام مکمل ہوچکا ہے۔
حکومتِ سندھ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن سے آر بی او ڈی-II کی تعمیر کا کام کروا رہی ہے، جس کی لاگت پر اب تک 2 بار نظرثانی ہوچکی ہے۔ پہلے 14 ارب روپے سے 29 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا اور پھر 62 ارب روپے تک اضافہ کیا گیا ہے۔ اب حکومتِ سندھ نالے پر ایک بار پھر مطالعے کے لیے کنسلٹنس کی مدد لینے جا رہی ہے اس لیے تیسری بار لاگت کا نیا تخمینہ پیش کرنے کی تیاریوں میں ہے۔ نیب نے پہلے ہی سینئر اور جونیئر پراجیکٹ افسران کے خلاف فنڈز (4 ہزار 482 ارب روپے) کی مبیّنہ خردبرد کرنے پر احتساب عدالت میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔
مگر ایک طرف جہاں آر بی او ڈی-II سے متعلق گفتگو کی توجہ کا مرکز ذمہ داران کی نااہلی اور کرپشن بنا ہوا ہے وہیں دوسری طرف منچھر جھیل کے متاثرین مسلسل تکالیف کا سامنا کر رہے ہیں۔
صرف آر بی او ڈی-II منچھر کے ماحولیاتی نظام کے بگاڑ کا ایسا واحد مجوزہ حل نہیں ہے جو سالہا سال کی تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔ نئے گاج ڈیم کا کام بھی 2009ء سے جاری ہے، واپڈا کی جانب سے تعمیر کیے جانے والے اس منصوبے کا مقصد منچھر جھیل کو 50 کیوسک تازہ پانی کی مسلسل فراہمی ہے۔
ڈیم صرف جھیل کے لیے تازہ پانی کی فراہمی کے لیے کام نہیں آئے گا بلکہ واپڈا کے مطابق اس میں 3 لاکھ ایکڑ فٹ پانی بھی ذخیرہ کیا جائے گا۔ وزیرِاعظم عمران خان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر حکومتِ سندھ منصوبے کی تبدیل شدہ لاگت میں حصہ نہیں ڈالتی تب بھی ڈیم کا تعمیراتی کام مکمل کیا جائے گا۔
مگر ماہی گیروں کی امیدیں ماند پڑچکی ہیں۔ میرانی سمجھتے ہیں کہ اس جھیل کو اب کوئی کرشمہ ہی موسمِ سرما میں جھیل کے سرکنڈوں پر اترنے والے پرندوں کی 'جنت' کے طور پر بحال کرسکتا ہے اور مچھلیوں کے لیے پہلے جیسی تازہ پانی کی فراوانی ممکن بناسکتا ہے۔
بلاشبہ برسوں سے زیرِ تعمیر طے شدہ منصوبوں کو حقیقت کا روپ دینا اور منچھر کے ماحولیاتی نطام کی صورتحال میں بہتری لانا کسی کرشمے سے کم نہیں ہوگا۔
یہ مضمون 13 جون 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں