• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

قومی اسمبلی میں شہباز شریف کی تقریر کے دوران شدید ہنگامہ آرائی، شور شرابا

شائع June 15, 2021
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ایوان میں توریر کررہے ہیں — ڈان نیوز
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ایوان میں توریر کررہے ہیں — ڈان نیوز

اسلام آباد: قومی اسمبلی میں رواں مالی سال کے پیش کردہ بجٹ پر بحث سے متعلق اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر کے دوران حکومتی اراکین اور اپوزیشن کے درمیان دوسرے روز بھی بد کلامی اور کشیدگی دیکھی گئی جس کے باعث اسپیکر کو اجلاس کچھ دیر کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔

اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے تقریر کا آغاز کیا تو وفاقی وزرا سمیت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ارکان نے ایوان میں شور شرابا شروع کیا اور ڈیسک پر بجٹ کتاب بجاتے رہے۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف کی تقریر کے دوران ہنگامہ آرائی، قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی

اس موقع پر اسد قیصر نے ایوان کو چلانے کی کوشش کی اور حکومت و اپوزیشن اراکین سے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نشستوں پر بیٹھنے اور اپوزیشن لیڈر کی تقریر سننے کا کہا۔

حکومتی اراکین کی جانب سے ایوان میں ہنگامہ آرائی کے باعث اسپیکر قومی اسمبلی نے متعدد مرتبہ اعلان کیا کہ ایوان کی کارروائی کو جاری رہنے دیا جائے تاہم ناکامی پر انہوں نے ایوان کی کارروائی کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیا۔

اجلاس کی کارروائی ملتوی ہونے کے بعد ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین میں جھڑپ بھی ہوئی۔

دوران اجلاس اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے درمیان کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب پی ٹی آئی کے اسلام آباد سے رکن قومی اسمبلی اور وزیراعظم کے معاون خصوصی علی نواز اعوان نے مسلم لیگ (ن) کے رکن شیخ روحیل اصغر کو بجٹ کی کتاب دے ماری اور ان کے لیے نا مناسب زبان استعمال کرتے رہے۔

اس کے بعد ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان جھڑپ ہوئی اور ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔

بعد ازاں کچھ دیر التوا کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے ایک مرتبہ پھر تقریر کا آغاز کیا اور اس موقع پر انہیں اپوزیشن اراکین نے گھیر رکھا تھا، دوسری جانب اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران حکومتی اراکین کا شور شرابا جاری رہا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز بھی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی تقریر کے دوران ہنگامہ آرائی ہوئی جس کے باعث اسپیکر نے اجلاس 20 منٹ کے لیے ملتوی کیا تھا لیکن وہ دوبارہ شروع نہ ہوسکا۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 22-2021 کا بجٹ پیش، کم از کم تنخواہ 20 ہزار روپے مقرر

واضح رہے کہ گزشتہ روز اپنی تقریر میں شہباز شریف نے کہا تھا کہ موجودہ حکومت نے اپنا چوتھا بجٹ پیش کردیا ہے، بجٹ باعث ریلیف ہونا چاہیے لیکن یہ بجٹ باعث تکلیف ہے۔

شہباز شریف کی تقریر شروع ہوتے ہی حکومتی اراکین نے احتجاج اور شور شرابا کیا تھا۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی تقریر کے دوران حکومتی اراکین اور وفاقی وزرا کی اپوزیشن سے ہونے والی زور آزمائی کو ٹوئٹرپر 'اولمپک لیول کی ایتھلیٹس' قرار دیا گیا۔

مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی کھیئل داس کوہستانی نے وفاقی وزرا کی جانب سے بجٹ کی کاپیاں ڈیسک پر مارنے کے حوالے سے ٹوئٹر پرکہا کہ 'شاباش شاباش، وزیر تعلیم اور وزیر ماحولیاتی تبدیلی بجٹ کاپیوں کو ڈیسک پر مار کر اپنے نا اہل کپتان عمران خان اور نکمی حکومت کے خلاف عوام دشمن بجٹ پر احتجاج کر رہے ہیں'۔

اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا تھا کہ اگر عوام کی جیب خالی ہے تو پھر بجٹ کے تمام اعداد وشمار جعلی ہیں، دن رات ریاست مدینہ کا ذکر کرنے والے اور مثال دینے والے حکمران کاش غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے کروڑوں پاکستانیوں کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھاتے، کاش وہ یتیم اور بیواؤں کی دعائیں لیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

شہباز شریف نے کہا کہ یہ حکومت تین سال سے مسلسل سفید جھوٹ بولتی آرہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرخزانہ نے کہا عوام پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا کیا وہ اپنی اس بات پر قائم ہیں اور اسٹینڈ لیں گے، اگر عوام پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا ہے تو ہمیں اس کی تصدیق کریں، جس کا ابھی تک کچھ علم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ 383 ارب کے اضافی ٹیکس لگائے جا رہے ہیں، اگر یہ سچ ہے تو پھر وزیرخزانہ کو یہاں آکر یہ بات کہنی چاہیے تھی وگرنہ یہ بات نہ صرف ایوان کی روایت کے خلاف ہوگی بلکہ یہ ایک غلطی ہے اس کی درستی ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شنید ہے کہ ان ظالمانہ ٹیکسوں میں ایل این جی اور خام تیل کی درآمد پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگایا جارہا ہے، اگر یہ بات درست ہے تو عوام کو مہنگائی کی نئی قیامت ٹوٹ پڑے گی اور عوام مزید پریشان حال ہوں گے، زندگی اجیرن ہوں گے۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ دودھ دہی اور ڈیری مصنوعات پر 17 فیصد ٹیکس لگایا جارہا ہے، ان حالات میں ایک غریب آدمی بڑی مشکل سے روٹی کا انتظام کرتا ہے اور آج اس ٹیکس کے ذریعے اس سے دہی اور روٹی بھی چھینی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پھر چینی پر ٹیکس لگا کر اس کو بھی مزید مہنگا کیا جا رہا ہے، اب چینی مزید مہنگی کردی جائے تو غریب آدمی کدھر جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ آج ایک غریب گھرانے کی تنخواہ اتنی گر چکی ہے کہ اس کو شام کویہ فیصلہ کرنا ہے کہ اگلے دن دال روٹی لانی ہے یا بیمار بچی یا ماں کے لیے دوائی لانی ہے یا بچوں کے کپڑے لانے ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ اسے بھی زیادہ سنجیدہ بات یہ ہے کہ شنید ہے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط کو طے کرانے میں بعض عالمی طاقتوں کا کردار ہے تو پھر اگر یہ بات ہے تو عمران خان کو یہاں پر آکر ایوان کو اعتماد میں لینا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو ایوان میں آکر بتانا چاہیے کہ آئی ایم ایف کی کیا شرائط ہیں اور کون سی وہ طاقتیں ہیں جو اس میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان بطور وزیراعظم ایسے حساس معاملے آتے ہیں تو سیٹ خالی ہوتی ہے، جب مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی بات آتی ہے تو سیٹ خالی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ویکسین کے ٹیکوں کی بات ہوتی ہے تو وزیراعظم کی سیٹ خالی ہوتی ہے، جب کورونا کے خلاف جدوجہد کی بات آتی ہے تو یہ سیٹ خالی ہوتی ہے۔

صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ جب فلسطین کی بات آتی ہے تو ایوان میں وزیراعظم کی سیٹ خالی ہوتی ہے، جب غریب کے منہ سے نوالے چھیننے، 50 لاکھ گھروں کی بات ہوتی ہے تو یہ سیٹ خالی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب دن رات جھوٹ، چینی اسکینڈل، بی آر ٹی اور آٹا اسکینڈل کی بات ہوتی ہے یہ سیٹ خالی ہوتی ہے، اس لیے بات کریں تو کس سے کریں۔

شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے جب 2013 میں پرانا پاکستان ان حوالے کیا تھا تو 5.8 فیصد پر اپنی ترقی کی شرح لے گئے تھے، اس وقت دہشت گردی خیبرپختنوا، پنجاب، بلوچستان، سندھ، کشمیر اور گلگت بلتستان میں عبادت گاہیں، اسکول اور کچہری دہشت گردی سے محفوظ نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے کوئی تیار نہیں تھا ماسوائے پاکستان کے وہ دوست جنہوں نے پاکستان کو مصیبت میں کبھی اکیلا نہیں چھوڑا، چاہے وہ چین ہو، سعودی عرب ہو یا خلیجی ممالک، نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا۔

انہوں نے کہا کہ 2013 میں نواز شریف جب آئے تو انہوں نے الزام تراشی نہیں کی لیکن حالات کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی پی ٹی آئی نے 2013 میں اسلام آباد میں دھرنا دے کر معیشت کا جنازہ نکال دیا تھا اور چین کے صدر کے دورے کومؤخر کردیا گیا، وہ دورہ پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کا سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا لیکن پی ٹی آئی کی قیادت نے وہاں سے ہٹنے سے انکار کیا حالانکہ واسطے دے کر ان سے کہا گیا تھا کہ تین دن تک دھرنا مؤخر کریں لیکن اتنی بدترین سنگدلی کوئی نہیں دکھا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پھر جب 7 ماہ بعد صدر شی جن پنگ آئےتو ترقی کی خوشبو پھیلی اور ہر طرف ترقیاتی و خوش حالی کے منصوبوں پر دن رات کام ہونے لگا۔

شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں ایل این جی کے تیز ترین منصوبے لگا کر گیس کی قلت دور کی گئی، اس کا سہرا نواز شریف کی قیادت میں یہاں بیٹھےسابق وزیر شاہد خاقان عباسی اور اس وقت کے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال پر جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 8 ہزار کلومیٹر موٹرویز بنیں اور گوادر پورٹ کو سڑکوں کے جال کے ذریعے پورے پاکستان کوملادیا گیا، عالمی معیار کے ہسپتال بنائے گئے اور پی کے ایل آئی بنایا گیا، جس کو پی ٹی آئی نے بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کتنی مماثلت ہے کہ پی کے ایل آئی اور پی ٹی آئی کو تباہ و برباد کرنےمیں انہوں نے کوئی کوشش نہ چھوڑی اور کورونا آیا تو مجبور ہوئے اور قرنطینہ اور کورونا ٹیسٹ کے لیے مرکزی سینٹر بنا دیا، وہاں بہترین انتظامات تھے۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ صحت کے میدان میں خیبر پختونخوا میں نواز شریف کے دور میں بہتر سہولیات فراہم کی گئیں، مفت ادویات کا انتظام پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کیا، ہسپتالوں میں ٹیسٹ فری کردیا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں کینسر کی بعض اقسام کے لیے مفت ادویات کاانتظام ہم نے کیا تھا اور اربوں کا فنڈز خرچ کیا لیکن اس حکومت نے کینسر کے مریض سے وہ دوائی بھی چھین لی، پھر یہ ریاست مدینہ کا نام کس منہ سے لیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا کی سب سے بہترین فورنزک لیب ہم نے بنائی جو پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا سے کریمنل کیسز آتے ہیں اور وہ لیب عدلیہ اورپولیس کے معاون ہے۔

صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ یہ نواز شریف کی جانب سے قوم کی خدمت ہے کہ صحت کارڈ متعارف کروایا، یہ حکومت تختی لگانے کے ماہر ہیں، جہاں منصوبہ چل رہا ہو وہاں بھی جا کر تختی لگادیتے ہیں اور کوئی منصوبہ نہیں چل رہا ہو اس پر بھی تختی لگا دی۔

انہوں نے کہا کہ صحت کارڈ ہم نے شروع کیا تھا اور اگر آج یہ بڑھاتے ہیں تو اچھی بات ہے لیکن جو واقعات میں نے گنوائے ہیں،کوئی امید نہیں ہے، کاش یہ کرسکیں اور ہم اس پر دل کھول کر داد دیں لیکن تین سال میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024