کسٹم ڈیوٹی، ٹیکس کے نفاذ پر ریفائنریز کا احتجاج
اسلام آباد: ملک کی پانچوں آئل ریفائنریز، خام تیل پر ڈیوٹی اور ٹیکس لگانے اور حکومت کی جانب سے نظام میں اپ گریڈ اور جدت کے لیے مراعات دینے کے وعدوں کی خلاف ورزی پر سراپا احتجاج ہیں۔
ریفائنریز نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پیٹرولیم ریفائننگ کی نئی پالیسی کے حصے کے تحت ریفائننگ کے شعبے کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا احترام کرے، جسے حال ہی میں حتمی شکل دی گئی تھی اور اس کی باضابطہ منظوری اور اعلان ہونا باقی ہے۔
وزارت توانائی و پیٹرولیم ڈویژن کو ارسال کیے گئے ایک مشترکہ خط میں، پانچوں ریفائنریز نے لکھا کہ وفاقی بجٹ 22-2021 کی کئی شقیں 'وزارت توانائی اور ریفائنریز کے مابین اتفاق رائے سے وابستہ نہیں اور متفقہ مقاصد کے متضاد ہیں'۔
مزید پڑھیں : حکومت نے آئندہ مالی سال میں قرضوں کی ادائیگی کے لیے 30 کھرب 60 ارب روپے مختص کردیے
ریفائنریز نے نشاندہی کی کہ اجتماعی طور پر متفقہ مراعاتی پیکیج کا مقصد ماحول دوست یورو-فائیو ایندھن اور فرنس آئل کی پیداوار کے لیے ریفائنریز کی اپ گریڈنگ کے لیے موجودہ چیلنجز اور نقد پیداوار میں مدد کرتے ہوئے موجودہ ریفائنریز کے استحکام کو یقینی بنانا تھا۔
تاہم بجٹ 2022 مخالف سمت میں پیش کیا گیا۔
خام تیل پر ڈھائی فیصد کسٹمز ڈیوٹی کے نفاذ پر تنقید کرتے ہوئے ریفائنریز نے کہا کہ دونوں فریقین نے بجٹ سے قبل اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ریفائنریز کے لیے خام مال کی حیثیت سے خام تیل پر کسٹم ڈیوٹی کو صفر رکھا جائے گا۔
مزید کہا گیا کہ یہی بات دوسری صنعتوں کے برابر تھی جہاں خام مال کی درآمد کو کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
خط میں مزید کہا گیا کہ خام تیل پر یہ کسٹم ڈیوٹی پیداواری لاگت میں اضافہ کرے گی اور ریفائنریز کے منافع پر منفی طور پر اثرانداز ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے نتیجے میں اپ گریڈیشن منصوبوں کے لیے مالی پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوگی جب تک کہ اس نفاذ کو صارف تک پہنچانے کی اجازت نہ دی جائے۔
مزید کہا گیا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں خام تیل پر مجوزہ 17 فیصد سیلز ٹیکس سے حکومت کے لیے کوئی اضافی ریونیو وصول نہیں کرے کیونکہ یہ قابلِ ترتیب تھا۔
تاہم، اس سے پہلے ہی مالی طور پر دباؤ کا شکار صنعت میں سرمایے کے مزید مسائل امور پیدا ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بڑے پیمانے پر ٹیکسز میں چھوٹ سے صنعتی نمو میں تیزی آئے گی
ایک اندازے کے مطابق یہ لگ بھگ 10 ارب ڈالر کے اضافی ورکنگ کیپٹل کی طلب پیدا کرے گا اور اس سے مالی معاوضوں میں بھی اضافہ ہوگا اور ریفائنریز کے منافع میں بھی کمی آئے گی۔
مزید یہ کہ اس سے اپ گریڈز کے لیے درکار نقد رقم کی پیداوار میں کمی آئے گی۔
وزارت توانائی کو ارسال خط میں کہا گیا کہ تیسری بات یہ کہ شق نمبر B (b) 126 کے تحت پہلے سے موجود ریفائنریز کو اپ گریڈیشن، ماڈرنائزیشن یا توسیعی منصوبے کے مقاصد کے لیے ٹیکس چھوٹ حاصل تھی۔
اس چیز پر بجٹ سے قبل دونوں فریقین نے ریفائننگ پالیسی کے مسودے کے حصے کے تحت اتفاق کیا گیا تھا کہ اس شق میں وضاحت کے مقصد کی حیثیت سے 10 سال کی ٹیکس چھوٹ کی مدت کا ذکر کیا جائے گا اور اسے مجوزہ مراعات کے تحت کیا جائے گا۔
اس خط میں مزید کہا گیا کہ اس کے برعکس، 2022 کے بجٹ میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ ٹیکس چھوٹ کم از کم یومیہ ایک لاکھ بیرل (بی پی ڈی) تبادلوں کی ریفائنری منصوبے میں اپ گریڈ کرنے پر لاگو ہوگی۔
ریفائنریز نے کہا کہ اس سے موجودہ تمام ریفائنریز کو خارج کر دیا جائے گا اور متفقہ پیکیج کے مقاصد کے متضاد ہے۔
چوتھا یہ کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے دوسرے شیڈول کی شق 126 بی کے تحت، نئی ڈیپ کنورژن ریفائنریز کے لیے 20 سال کی ٹیکس کی چھوٹ پہلے ہی دستیاب تھی اور اتفاق کیا گیا تھا کہ اس کو برقرار رکھا جائے گا۔
بدقسمتی سے بجٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ کم از کم ایک لاکھ بی پی ڈی کی صلاحیت کی نئی ڈیپ کنورژن ریفائنریز پر ٹیکس چھوٹ کو 10 سال تک محدود کیا جائے گا۔
خط میں مزید کہا گیا کہ اس سے ریفائننگ کے شعبے میں انتہائی ضروری غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
یہ خبر 15 جون، 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی