عدالتِ عظمیٰ نے کراچی میں دھرم شالہ کو مسمار کرنے سے روک دیا
سپریم کورٹ نے ہندو برادری کے مرکز کے لیے 716 مربع گز دھرم شالا کو مسمار کرنے سے متعلق تمام سرگرمیوں کو روکتے ہوئے کمشنر کراچی کو دھرم شالا کی زمین تحویل میں لینے کا حکم دے دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ خیبرپختونخوا میں سمادھی کو نقصان پہنچانے سے متعلق سماعت کی سماعت کررہا تھا۔
مزید پڑھیں: سمادھی نذرآتش کیس: جن لوگوں نے مندر کو نقصان پہنچایا ان سے پیسے وصول کریں، چیف جسٹس
دوران سماعت عدالت نے کراچی میں دھرم شالا کے معاملے پر سندھ کے سیکریٹری کو عمارت کے بارے میں جامع رپورٹ پیش کرنے کا نوٹس بھی جاری کردیا۔
گزشتہ برس 30 دسمبر کو خیبرپختونخوا میں ایک مذہبی جماعت کے کچھ مقامی عمائدین کی سربراہی میں ایک ہزار سے زیادہ افراد نے احتجاج کیا اور سمادھی کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
خیال رہے کہ خیبرپختونخوا میں سمادھی کی توڑ پھوڑ اور اس پر آتش گیر مواد کا استعمال ہوا تھا جس پر عدالت نے خیبرپختونخوا کے چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل کو جگہ کا دورہ کرنے اور جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
دو روز قبل 11 جون کو سماعت کے دوران پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے کراچی میں دھرم شالا کو مسمار کرنے سے متعلق سرگرمیوں پر سپریم کورٹ کی توجہ دلائی۔
یہ بھی پڑھیں: ہندو سمادھی کو نذرآتش کرنے کا معاملہ: چیف جسٹس کا نوٹس، 14 افراد گرفتار
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ دھرم شالا کی جگہ تجارتی پلازہ تعمیر کرنے کے لیے راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر رمیش کمار نے بتایا کہ پراپرٹی کراچی کے صدر ٹاؤن میں نیپئر کوارٹرز میں واقع ہے اور لگ بھگ 716 اسکوائر گز پر مشتمل ہے اور یہ ایک دھرم شالہ ہے۔
انہوں نے سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو بتایا کہ ایوکیو ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ (ای ٹی پی بی) نے کچھ نجی افراد کو یہ پراپرٹی لیز پر دی جو اب ایک نئی عمارت بنانے کے لیے دھرم شالہ کو مہندم کرنا چاہتے ہیں۔
علاوہ ازیں ای ٹی پی بی کے چیئرمین نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) کی جانب سے اس کی اجازت ملنے کے بعد نجی افراد کو یہ پراپرٹی لیز پر دی گئی تھی۔
مزیدپڑھیں: خیبرپختونخوا: مشتعل ہجوم کی ہندو بزرگ کی سمادھی میں توڑ پھوڑ، نذرآتش کردیا
تین صفحات پر مشتمل حکم میں چیف جسٹس نے مشاہدہ کیا کہ ایس ایچ سی کا حکم پہلے سپریم کورٹ کے سامنے نہیں تھا لیکن ڈاکٹر رمیش کمار کی فراہم کردہ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ دھرم شالا کی عمارت 1932 میں تعمیر ہوئی تھی اور دھرم شالا کی عمارت پر نصب سنگ مرمر کے سلیب پر سال بھی واضح پڑھا جاسکتا ہے لہذا ایک ورثہ کی عمارت ہونا ضروری ہے۔