پی ٹی اے کو فیس بک کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی ہدایت
پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر کے چیئرمین شہریار خان آفریدی نے 10 جون کو پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے سربراہ کو پاکستانی اور کشمیری سوشل میڈیا صارفین کے خلاف 'مخصوص اقدامات' پر قانونی کارروائی کی ہدایت کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے شہریار آفریدی نے حیرت کا اظہارا کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی اے حکامک ی جانب سے فیس بک انتظامیہ کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی اور پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو حکومتی ہدایات پر عمل نہ کرنے پر بلاک کیوں نہیں کیا جاتا۔
وزارت خارجہ کے عہدیداران اور کل جماعتی حریت کانفرنس کا ایک وفد اور دیگر بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔
کمیٹی نے متفقہ طور پر 2 قراردادوں کی منظوری دی جن میں مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی جارحیت اور فوجیوں کی تعیناتی اور کینیڈا میں ایک مسلم خاندان پر دہشتگرد حملے کی مذمت کی گئی۔
کمیٹی کو پی ٹی اے چیئرمین میجر جنرل ریٹائرڈ عامر عظیم باجوہ نے بریفننگ دیتے ہوئے پاکستانی صارفین کے اکاؤنٹس اور پیجز کو حال ہی معطل کرنے پر فیس بک انتظامیہ کے خلاف اقدامات سے آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی اے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پوسٹس کرنے والے پاکستانیوں اور کشمیریوں کی سنسر شپ پر تحفطاٹ سے آگاہ کیا۔
تاہم کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نے پی ٹی اے سربراہ سے پوچھا کہ فیس بک اور ٹوئٹر انتظامیہ نے اب تک پاکستان میں اپنے دفاتر کیوں نہیں کھولے۔
انہوں نے متعدد پاکستانی صارفین اور پیجز کو معطل کرنے کے حوالے سے فیس بک کے ایک حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے پی ٹی اے سربراہ سے پوچھا کہ ان کے ادارے نے فیس بک ٹیم کے خلاف کیا کارروای کی ہے۔
انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ آخر فیس بک نمائندگان نے اجلاس میں شرکت سے انکار کیوں کیا اور پی ٹی اے سربراہ کو ہدایت کی کہ وہ کمیٹی کے اگلے اجلاس میں فیس بک کے عملے کی موجودگی کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو کمیٹی کے اگلے اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو کیا۔
حریت کانفرنس کے کنونیر سید فیض نقش بندی نے شہریار آفریدی کی ہدایات کو سراہتے ہوئے کہا کہ کشمیری حکومت پاکستان کی سفارتی حمایت پر خوش ہیں۔
انہوں نے کمیٹی اراکین کو مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بریفننگ دیتے ہوئے کہا کہ ایسی افواہیں موجود ہیں کہ بھارت کی جانب سے خطے کے صدر مقام کو سرینگر سے ہندو اکثریتی علاقے جموں میں منتقل کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔