• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

ویکسین کے حصول کے لیے ایک ارب ڈالر مختص

شائع June 9, 2021
اسد عمر نے کہا تھا کہ ضروریات کے مطابق ویکسین کے حصول کے لیے رقوم مختص کی جائیں گی — فائل فوٹو / اے ایف پی
اسد عمر نے کہا تھا کہ ضروریات کے مطابق ویکسین کے حصول کے لیے رقوم مختص کی جائیں گی — فائل فوٹو / اے ایف پی

اسلام آباد: ویکسین کے حصول کے لیے ایک ارب ڈالر مختص کرنے کی منظوری دیتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ کابینہ کی قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) نے وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی)، عوامی فنڈز کے موثر استعمال کو یقینی بنانے اور صوبائی سالانہ ترقیاتی منصوبے (اے ڈی پی) کا جائزہ لینے کے لیے ہر سال اپنا اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ابتدائی طور پر پاکستان، کوویکس پر انحصار کررہا تھا جو ایک بین الاقوامی پروگرام ہے جس کے ذریعے ملک کی 20 فیصد آبادی کے لیے کورونا ویکسین مفت فراہم کی جارہی ہے تاہم سپلائی میں تاخیر ہوئی کیونکہ بھارت، جس نے پاکستان کو ویکسین فراہم کرنی تھی، نے مقامی استعمال کے لیے تمام ویکسین روکنے کا فیصلہ کیا تھا۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر نے کہا تھا کہ ضروریات کے مطابق ویکسین کے حصول کے لیے رقوم مختص کی جائیں گی۔

دریں اثنا وزارت قومی صحت سروس نے اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو (اے جی پی آر) سے درخواست کی ہے کہ وہ ویکسین کی ٹرانسپورٹیشن سے نمٹنے کے لیے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے)، پاک فضائیہ (پی اے ایف) اور ایک نجی کمپنی کو 27 کروڑ روپے ادا کرے۔

ڈان کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق اے جی پی آر کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ پی آئی اے کو چین سے پاکستان میں ویکسین کی ٹرانسپورٹیشن کے لیے 22 کروڑ 40 لاکھ روپے ادا کرے۔

مزید پڑھیں: کورونا ویکسین کی قیمت طے نہ کرنے پر کابینہ سیکریٹریز کو شوکاز نوٹس جاری

اس کے علاوہ پی اے ایف کو ویکسین کی ٹرانسپورٹیشن چارجز کے طور پر 3 کروڑ 80 لاکھ روپے کی رقم ادا کی جائے گی۔

اے جی پی آر سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ویکسین سے متعلق ایئرپورٹ ہینڈلنگ چارجز کی مد میں ڈی ایچ ایل گلوبل فارورڈنگ پاکستان پرائیوٹ لمیٹڈ کو 12 لاکھ 20 ہزار روپے ادا کرے۔

نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبوں کی حمایت اور مشاورت سے ترقیاتی ترجیحات طے کر رہی ہے، لیکن وفاقی پی ایس ڈی پی کے بارے میں فیصلے صوبے نہیں کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ وفاقی پی ایس ڈی پی ہے اور وفاقی حکومت اس کے بارے میں فیصلے کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی'۔

وزیر نے اس بات سے انکار کیا کہ پی ایس ڈی پی 22-2021 میں سندھ کا حصہ کم ہے اور کہا کہ پیر کو این ای سی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ سندھ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 90 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور پنجاب کے لیے 93 ارب روپے جبکہ پنجاب کی آبادی تقریباً دگنی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی شکایت وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کرتے تو سمجھ میں آتا مگر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے نہیں، جب پبلک ۔ پرائیوٹ پارٹنرشپ کے ذریعے فنڈز فراہم کیے جانے والے منصوبوں کو بھی شامل کیا جائے گا تو سندھ کا حصہ 130 ارب روپے ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سائنوفارم ویکسین کی کمی نہیں ہے، ڈاکٹر فیصل سلطان

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پیپلز پارٹی نے 4 بار وفاقی حکومتیں اور 6 بار صوبائی حکومتیں بنائیں، لیکن وہ ایک انچ موٹروے بھی نہیں بناسکے جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے سکھر۔ملتان موٹروے کے لیے 9 ارب روپے فراہم کیے تھے اور اب وہ سکھر۔حیدر آباد موٹروے کی فنڈنگ کر رہی ہے۔

وزیر منصوبہ بندی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ موجودہ حکومت کے دوران اور شاید طویل عرصے سے این ای سی کے دو سالہ اجلاسوں کے انعقاد کے لیے آئینی تقاضے پورے نہیں کیے گئے تھے، تاہم این ای سی نے اپنے اجلاس میں جنوری میں اور ہر سال مئی کے آخر تک باقاعدہ اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان قومی ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لینے کے لیے این ای سی کے سہ ماہی اجلاس بھی چاہتے ہیں جس میں صوبائی منصوبے بھی شامل ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں اسد عمر نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کی ترقی کے لیے مختص رقم مؤثر نہیں ہوسکی اور اس کے نتیجے میں فنڈز کا رخ مڑ گیا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ ان فنڈز کو خیبر پختونخوا حکومت کے ذریعے استعمال کیا جارہا ہے اور حال ہی میں وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ منصوبوں کی نمائش کو یقینی بنانے کے لیے نگرانی کا ایک مؤثر طریقہ کار بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی منصوبہ بندی کے سیکریٹری اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کو صورتحال کو حل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ ایک طرف وزیر اعلیٰ سندھ اپنے صوبے میں منصوبوں کے لیے ناکافی فنڈز کی شکایات کر رہے ہیں اور دوسری طرف یہ شکایت کر رہے ہیں کہ وفاقی حکومت، سندھ میں چھوٹے منصوبوں کو کیوں فنڈ فراہم کر رہی ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ 'انہیں فیصلہ کرنا چاہیے کہ ان کا کیا معاملہ ہے، سندھ اور صوبائی حکومت دو الگ الگ چیزیں ہیں اور مرکز لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے اسکیموں پر عملدرآمد جاری رکھے گا'۔

مزید پڑھیں: کورونا ویکسین سے متعلق پوچھے جانے والے اکثر سوالات کے جواب

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کووڈ 19 ویکسینز کی خریداری کے لیے ای سی سی کے ذریعے ایک ارب ڈالر مختص کرنے کی منظوری دے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پہلے ہی 25 کروڑ ڈالر مالیت کی ویکسینز خرید چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مؤثر ویکسی نیشن کے بغیر ملکی معاشی نمو آگے نہیں بڑھ سکتی ورنہ کورونا وائرس پابندی میں نرمی سے وائرس دوبارہ پھیل جائے گا، جیسا کہ دہلی میں ہوا جہاں چند روز قبل مریضوں کی تعداد میں پھر اضافہ ہوا ہے۔

وزیر نے اس تاثر کو ختم کیا کہ حالیہ برسوں میں چین ۔ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اختلافات کے باوجود سی پیک پر اچھی طرح سے کام ہو رہا ہے اور اس پر سب کی تائید حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگلے سال کے پی ایس ڈی پی میں 87 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے شامل ہیں جن میں صرف ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبوں میں 78 ارب روپے شامل ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ این ای سی نے اگلے سال کے لیے 21 کھرب روپے سے زائد کے جامع ترقیاتی پروگرام کی منظوری دے دی ہے، جو گزشتہ سال کے 15 کھرب 27 ارب روپے سے 36 فیصد زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کے سالانہ ترقیاتی منصوبے کا تخمینہ اگلے سال کے لیے 500 ارب روپے لگایا گیا ہے جو رواں سال 310 ارب روپے تھا۔

اس کے علاوہ سندھ کا اے ڈی پی آئندہ سال 321 ارب ہوگا جو رواں سال 194 ارب روپے تھا جبکہ بلوچستان کا ترقیاتی بجٹ اس سال کے 89 ارب روپے کے بجائے آئندہ سال 133 ارب روپے ہوجائے گا۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا کا ترقیاتی بجٹ رواں سال کے 274 ارب روپے سے کم ہوکر 248 ارب روپے رہ جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024