• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

اگلے انتخابات تک اپوزیشن جماعتیں چند حلقوں تک محدود ہوں گی، فواد چوہدری

شائع June 7, 2021
فواد چوہدری نے اپوزیشن پر سخت تنقید کی—فوٹو: ڈان نیوز
فواد چوہدری نے اپوزیشن پر سخت تنقید کی—فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اپوزیشن جماعتوں کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ان کا کوئی نظریہ نہیں ہے اس لیے سکڑتی جارہی ہیں اور اگلے انتخابات تک یہ صرف چند حلقوں تک محدود ہوجائیں گی۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ڈہرکی میں ہونے والے ریلوے حادثے کی تفصیلات بتائیں اورکہا کہ واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: سعد رفیق کے گناہ پر اعظم سواتی سے استعفے کا مطالبہ بے تکی بات ہے، فواد چوہدری

ان کا کہنا تھا کہ یہ برسوں کی غفلت ہے، جس کی وجہ سے آج ہمیں ان حادثات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، پاکستان کو جب ریلوے ملی تھی تو یہ دنیا کی بہترین ریلوے شمار ہوتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے ریلوے کا بجٹ بڑھایا جو اب نیب کے کیسز کا حصہ ہے اور سابق وزیر ریلوے سعد رفیق نیب کا ریفرنس کا سامنا کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج لاہور میں 300 ارب روپے اورنج ٹرین پر خرچ نہ کیے ہوتے اور اس پیسے کو ریلوے کے ٹریک پر خرچ کیا گیا ہوتا تو آج ہمیں ان حالات کا سامنا نہ ہوتا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ تاریک دہائی کے دوران حکومتوں نے اسٹیل مل، ریلوے، پی ٹی وی اور دیگر اداروں کو بھی پنپنے نہیں دیا، جب ہاتھ ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ کسی میں کسی کا حصہ ہے، یہی وہ تاریک راہیں جس سے گزرنے سے آج پاکستان اور عوام ان حادثات کا سامنا کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2008 سے 2018 تک اداروں میں بھرتیوں کو دیکھیں تو اداروں کو کسے نچوڑا گیا لیکن آج پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 60 لوگوں کو اداروں کے سربراہ مقرر کیا کوئی سیاسی بھرتی کا نہیں کہہ سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اداروں کو کھڑے کرنے میں تین سال لگے ہیں، کوشش کی گئی ہے چیزیں آگے بڑھیں لیکن یہ آگے بڑھنے دینے کو تیار نہیں ہیں۔

اپوزیشن کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ ان کا کسی قسم کی دلچسپی ہے تو صرف 10 کیسز ہیں اور کچھ نہیں ہیں۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ رویے دیکھیں کہ جب سانحہ ہوتا ہے اور جب ہم بات کرتے ہیں تو یہ سننے کو تیار نہیں ہیں، ان حادثات پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے ہم آگے بڑھ رہے ہیں، ہمارا راستہ وہ نہیں ہے جو ہونا چاہیے، ہم بات چیت کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان کی دلچسپی صرف ان 10 کیسز سے ہے، جس میں نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف، زرداری، فریال تالپور اور خورشید شاہ کے کیسز ہیں، اسے آگے ان کی دلچسپی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی حکومت میں ایک پی ٹی آئی اور دوسرا سندھ کا پاکستان ہے، مرتضیٰ وہاب

ان کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ اس ملک کی کہ ایوان کو اپنے مقدمات کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اسی لیے اپوزیشن کا آج کوئی کردار نہیں ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ کس طرح پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں اکٹھے ہوئے اور کس طرح ایوان سے باہر بیٹھی ہوئی قیادت کا کندھا استعمال کیا کہ کسی طریقے سے عمران خان کی حکومت گرا دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ آپ سب اکٹھے ہوں گے تب بھی عمران خان کی حکومت نہیں گرا سکیں گے اور آپ نہیں گرا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اگر آج اس ملک میں وفاق کی کوئی علامت ہے اور کوئی وفاقی جماعت ہے تو وہ لیڈر عمران خان اور وہ جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی سیاست کیا ہے، ان کی سیاست سندھی قوم پرستی ہے، جس کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو نے جدوجہد کی لیکن یہ آج اپنے بانیوں کے خلاف سیاست کر رہے ہیں اور ایک قوم پرست جماعت بن کر رہ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہی حالات پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بھی ہیں، یہ آج وسطی پنجاب کی جماعت بن کر رہ گئی ہے، یہ جماعتیں ملک میں اس لیے محدود ہو کر رہ گئی ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی نظریہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن جماعتوں کو نظریہ نہیں ہوگا اور وژن نہیں ہوتا وہ پھر ایسی باتیں اور سیاست کرتی ہیں، یہ جماعتیں سکڑتی جار ہی ہیں اورمزید سکڑیں گی۔

فواد چوہدری نے کہا کہ اگلے انتخابات آنے تک یہ جماعتیں اپنے چند حلقوں میں رہ جائیں گی لیکن ہم اپوزیشن کے چلنا اور بات کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ جماعتیں آگے چلنے والی نہیں ہیں، یہ جماعتیں مقدمات سے آگے بڑھنے والی جماعتیں نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم ان سے کہتے ہیں کہ اپنے مقدمات سے آگے نکل کر دیکھیں، آئیے اصلاحات اور جوڈیشل اصلاحات پر بات کریں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024