پاکستانی نوجوان افرادی قوت کو کس طرح اپنے حق میں استعمال کریں؟
رواں مالی سال اپنے اختتام کے قریب اور بجٹ کی گہماگہمی اپنے عروج پر ہے۔ اس وقت ملک بھر میں پاکستان کی رواں مالی سال کی معاشی شرحِ نمو کے اعداد و شمار زیرِ بحث ہیں۔ ملکی معاشی شرح نمو کے اعداد و شمار کے اجرا میں بہت سے شعبوں کی کارکردگی کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔
ان میں زراعت، صنعت اور خدمات یا سروسز کے شعبہ جات بھی شامل ہیں۔ زراعت ایک ایسا شعبہ ہے جس سے پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ وابستہ ہے۔ دوسری طرف خدمات کے شعبے کو بھی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں نوجوانوں کی دلچسپی اور ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی 21 کروڑ سے زائد ہے جبکہ آبادی میں 63 فیصد افراد کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ مطلب یہ کہ ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
ریٹیل سیکٹر ہو یا انفارمیشن ٹیکنالوجی، ملک کی نوجوان افرادی قوت کو استعمال کرکے ملکی معاشی شرحِ نمو میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ آئی ٹی اور اس کے ذیلی شعبہ جات میں نوجوانوں کے لیے بے پناہ مواقع بھی موجود ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت بھی آئی ٹی اور اس کے ذیلی شعبے ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر صرف اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ رواں مالی سال یعنی جولائی 2020ء تا اپریل 2021ء تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو خدمات کی برآمدات کا حجم 4 ارب 79 کروڑ سے زائد رہا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 4 ارب 69 کروڑ تھا۔
خدمات میں بڑا حصہ آئی ٹی، ٹیلی کمیونیکیشن اور کمپیوٹر کی خدمات کا ہے۔ خدمات کے اس ذیلی شعبے (Sub Sector) کی برآمدات کا حجم ایک ارب 70 کروڑ ڈالر سے زائد رہا ہے جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے سے 46 فیصد زائد ہے۔ صرف اپریل میں آئی ٹی سیکٹر خدمات کی برآمدات میں 66 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
آئی ٹی سیکٹر میں نوجوانوں کی شمولیت کے لیے سب سے پہلے تو نوجوانوں میں آئی ٹی اور اس سے متعلقہ شعبوں یعنی ڈیٹا سائنس، کمپیوٹر سائنس اور سافٹ ویئر انجینئرنگ کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو پتا ہونا چاہیے کہ اس فیلڈ میں شامل ہونے کے لیے کم از کم کتنی تعلیم کی ضرورت ہے اور یہ کہاں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کی متعدد یونیورسٹیاں انفارمیشن ٹیکنالوجی، کمپیوٹر سائنس اور سافٹ ویئر انجینئرنگ کی تعلیم اور ان میں بیچلرز و ماسٹرز کی اسناد بھی فراہم کر رہی ہیں۔
علاوہ ازیں، یونیورسٹیوں نے ڈیٹا سائنس میں بیچلرز پروگرام متعارف کروا رکھا ہے۔ ڈیٹا سائنس اگرچہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ذیلی فیلڈ نہیں تاہم اس سے متعلقہ مضمون ضرور ہے۔ ڈیٹا سائنس کی فیلڈ پاکستان میں قدرے نئی ہے تاہم عالمی رجحان میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اس کے بارے میں رجحان تبدیل ہورہا ہے۔
ڈیٹا سائنس کا استعمال بہت سے شعبوں میں ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر بڑے ڈیٹا کے صحیح استعمال سے مختلف ٹرینڈز کو جانچا جاسکتا ہے، خامیوں اور بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً حال ہی میں حکومت نے احساس پروگرام میں جعلی اکاؤنٹ ہولڈرز کی شناخت کی اور بتایا کہ یہ کچھ اکاؤنٹ ہولڈرز ایسے تھے جو اہل نہ ہونے کے باوجود اس پروگرام سے مستفید ہورہے تھے۔ اس نشاندہی کے لیے انہوں نے ڈیٹا سائنس کی ہی مدد لی تھی۔
بورڈ آف انوسٹمنٹ پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق اس شعبے سے تقریباً 3 لاکھ سے زائد افراد وابستہ ہیں جو صرف پاکستانی معیار ہی نہیں بلکہ عالمی معیار پر بھی پورا اترتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں 2 ہزار آئی ٹی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ پاکستان میں سالانہ 10 ہزار آئی ٹی گریجویٹس ملازمت کی مارکیٹ میں شامل ہورہے ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں 52 انکیوبیشن سینٹر کام کررہے ہیں جہاں نوجوانوں کو اپنے چنے آئیڈیاز کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کی جارہی ہے۔
پاکستان میں آئی ٹی سیکٹر نہ صرف ملکی معشیت کا ایک اہم حصہ بن رہا ہے بلکہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیوں کے لیے انتہائی پُرکشش بھی ثابت ہورہا ہے۔ حال ہی میں دنیا کے سب سے بڑے ای کامرس پلیٹ فارم ایمازون نے بھی پاکستان کو اپنی لسٹ میں شامل کیا ہے۔ پاکستان میں قائم 'دی نیسٹ آئی او' ایک انکیوبیشن سینٹر کو برطانوی، امریکی حکومت اور بین الاقوامی کمپنیوں گوگل اور سام سنگ کی جانب سے مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔
پاکستانی نوجوانوں کی بنائی ہوئی کمپنیاں غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنی جانب راغب کر رہی ہیں۔ آئے روز کوئی نہ کوئی نئی کمپنی ابتدائی سرمایہ کاری کے حصول میں کامیاب نظر آتی ہے۔ پاکستان کے یہ اسٹارٹ اپس 70 لاکھ ڈالر تک کی ابتدائی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اگر صرف 7 بڑے اسٹارٹ اپس کی بات کی جائے تو ان کمپنیوں نے 10 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی ابتدائی سرمایہ کاری حاصل کی ہے۔
ان تمام کمپنیوں کے ماڈلز نہ صرف بہترین ٹیکنالوجی پر بنائے گئے ہیں بلکہ نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے بہترین مواقع بھی پیدا کررہے ہیں۔ بیشتر کمپنیوں کے بزنس ماڈلز میں ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ دیگر خدمات کو بھی شامل کیا گیا ہے، جن میں ٹرانسپورٹ، جائیداد اور گاڑیوں کی خرید و فروخت، سامان کی ترسیل، بینکنگ ای کامرس، فوڈ ڈیلیوری اور دیگر شامل ہیں۔
جہاں تک اس شعبے کو ترقی دینے کی بات ہے تو اسے عالمی معیار کے موافق بنانے اور مختلف کاروبار کو آسان بنانے کے لیے حکومتی سطح پر ڈیجیٹائزیشن پر زور دیا جارہا ہے۔ عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکلنے اور معاشی سسٹم میں شفافیت لانے کے لیے اسٹیٹ بینک، وزارتِ خزانہ، ایف بی آر اور وزارتِ خزانہ بھی ڈیجیٹائزینشن پر زور دے رہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے فراہم کردہ بیشتر سہولیات کو ڈیجیٹائز کیا جارہا ہے اور اس کی حالیہ مثال اسٹیٹ بینک کا تریسلاتِ زر کے لیے بنایا گیا سسٹم 'راست' اور 'روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس' ہیں۔ اس کے علاوہ بینک اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اس ضمن میں کافی کام کر رہی ہیں، ایسے میں اس شعبے میں روزگار تلاش کرنے والے افراد کی کھپت بھی بڑھ رہی ہے۔
انٹرنیٹ کی مدد سے پاکستان میں موجود آئی ٹی پروفیشنلز دنیا کے کسی بھی حصے میں فری لانس کام کرسکتے ہیں۔ ابھی بھی پاکستان کا شمار آئی ٹی سیکٹر میں بہترین فری لانس افرادی قوت فراہم کرنے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر ہوتا ہے۔
مختلف عالمی فورمز پر بھی پاکستان کے اس سیکٹر کو کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل ٹیلی کمیونکیشن یونین نے پاکستان کے ایک انکیوبیشن سینٹر کو ایک کیٹیگری میں چیمپیئن قرار دیا ہے۔
آئی ٹی سیکٹر سے وابستہ پاکستان کی ڈیٹا سائنس کمپنی ایل ایف ڈی کے سی ای او سید تجمل حسین کا کہنا ہے کہ ’پوری دنیا کی طرح پاکستان کے اس سیکٹر میں نوجوانوں کے لیے بیش بہا مواقع موجود ہیں۔ پاکستانی گریجویٹس کے پاس بہترین نصابی تعلیم موجود ہے اور ان کو عملی تجربے اور مناسب ٹریننگ کے بعد مزید نکھارا جاسکتا ہے‘۔
سید تجمل حسین کا مزید کہنا ہے کہ ’اگر مناسب حکومتی معاونت حاصل رہی تو آئی ٹی سیکٹر برآمدات میں سالانہ کم از کم 35 فیصد کا اضافہ متوقع ہے‘۔
اس تمام تر بہتری کے باوجود ابھی بھی بہت سے ایسے اقدامات ہیں جن کے بعد یہ صنعت پاکستان کی نوجوان آبادی کے لیے ملازمتوں کے مزید دروازے وا کرسکتی ہے۔ ان اقدامات میں جامع آئی ٹی پالیسی، سافٹ ویئر کمپنیوں، انکیوبیشن سینٹر اور آئی ٹی پارکس کا قیام شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پے پال، گوگل پے اور ایپل پے کو پاکستانی مارکیٹوں تک لانا گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ وہ دنیا میں تیزی سے ترقی کرتے اس شعبے میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے نصابی اور علمی ٹریننگ کے حصول کو ممکن بنائیں۔ اس شعبے کو نوجوانوں کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ اس شعبے میں جدید سوچ، نئے اور بہتر کاروباری آئیڈیاز کامیابی کی ضمانت ہیں۔ دنیا بھر میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں صرف ایک آئیڈیا نے بہترین بزنس ماڈل کی شکل اختیار کرکے سیکٹروں افراد کی زندگی بدل دی۔
تبصرے (1) بند ہیں