حکومت، کے الیکٹرک اضافی بجلی کی فراہمی کیلئے ادائیگی کا طریقہ کار طے کرنے میں ناکام
اسلام آباد: وفاقی حکومت اور کے الیکٹرک، کراچی کو اضافی بجلی کی فراہمی کے لیے ادائیگی کا طریقہ کار طے نہیں کر سکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کی جانب سے کے الیکٹرک کے وفد کو وزیر اعظم آفس لے جانے کے بعد کراچی میں بجلی کی فراہمی کے مسائل حل کرنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر پاور ڈویژن میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔
پاور ڈویژن میں ہونے والے اجلاس کی صدارت وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے کی تاہم پاور ڈویژن نے اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
اس کے علاوہ پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ایک مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں گورنر سندھ عمران اسمٰعیل، وفاقی وزیر حماد اظہر اور فنانس اینڈ پاور کے سیکریٹریز نے شرکت کی۔
مزید پڑھیں: کے الیکٹرک کا اضافی 40 ارب روپے کا مطالبہ، کراچی میں بجلی مزید مہنگی ہونے کا امکان
بیان میں کہا گیا کہ کے ای انتظامیہ کو بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے پاور یوٹیلیٹی کے تمام امور پر توجہ دی ہے اور یہ واضح طور پر کے ای کی ذمہ داری ہے کہ وہ کراچی کے شہریوں کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
حماد اظہر نے کے الیکٹرک کو 400 میگا واٹ سے زیادہ فراہمی کے عزم کا اعادہ کیا۔
کے ای کو ہدایت کی گئی کہ وہ کراچی کو 10 دن کے اندر بلاتعطل بجلی کی فراہمی میں رکاوٹ بننے والے تمام معاملات حل کریں۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ توقع کی جارہی ہے کہ کراچی میں اس وقت جاری گرم موسم کا 10 روز میں خاتمہ ہوجائے گا تاہم یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ اہم سیاسی اور مالی مفادات اس میں ملوث ہیں اور مالیاتی حکام ایسے معاملات میں انگلیاں جلانے سے گریزاں ہیں۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ کابینہ کے ممبران اور اعلیٰ بیوروکریٹس کے ایک گروپ نے کے الیکٹرک کو بغیر کسی بجلی کی خریداری کے معاہدے یا ادائیگی کے طریقہ کار کے تقریبا ایک ہزار 200 میگاواٹ بجلی کی فراہمی کی مخالفت کی ہے۔
اس گروپ نے وزیر اعظم اور پاور ڈویژن کو خبردار کیا کہ جہاں قومی گرڈ میں اضافی پیداوار دستیاب ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت 24 گھنٹے میں کے الیکٹرک کو 2 ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی فراہم کرسکتی ہے وہیں کے الیکٹرک کے پاس اس کو حاصل کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی، ’کے الیکٹرک‘ کی کارکردگی اور ’اگر، مگر‘ کا تڑکا
انہوں نے یہ بھی شکایت کی کہ کے الیکٹرک نے اپنے نئے بن قاسم پلانٹ کی جانچ کے لیے بھی پاکستان ایل این جی لمیٹڈ کو اضافی گیس کی فراہمی کا آرڈر پلانٹ کے اب تک تیار نہ ہونے کی وجہ سے نہیں دیا تھا جس کا پہلا یونٹ 450 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے ساتھ جون تک چلنا چاہیے تھا اور اس کے بعد اسی صلاحیت کا دوسرا یونٹ اکتوبر میں شامل ہونا چاہیے تھا۔
تاہم وفاقی حکومت کے لیے سیاسی مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ تو کے الیکٹرک کو نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی روک سکتی ہے اور نہ ہی یہ بغیر ادائیگی کے ہونے والی کے الیکٹرک کو بجلی کی فراہمی کو قانون کی چھتری تلے لاسکتی ہے۔
پاور ڈویژن کا دعوٰی ہے کہ کے الیکٹرک کے سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی ایجنسی (سی پی پی اے) / نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کو 212 ارب روپے قابل ادا ہیں۔
کابینہ کمیٹی برائے توانائی (سی سی او ای) نے گزشتہ سال بجلی کی قلت کی وجہ سے شہر کے لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے نیشنل گرڈ سے 1350-1400 میگاواٹ اضافی بجلی کی فراہمی کا فیصلہ کیا تھا۔
اضافی بجلی کے حصے کے طور پر این ٹی ڈی سی نے پہلے ہی فراہمی شروع کردی ہے۔