• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

میڈیا کے مجوزہ ریگولیٹری ادارے پر بات چیت کیلئے حکومتی کمیٹی تشکیل

شائع June 2, 2021
سول سوسائٹی اور میڈیا کے حقوق کا تحفظ کرنے والے گروپس نے آرڈیننس کو میڈیا مارشل لا قرار دیا ہے— فائل فوٹو: رائٹرز
سول سوسائٹی اور میڈیا کے حقوق کا تحفظ کرنے والے گروپس نے آرڈیننس کو میڈیا مارشل لا قرار دیا ہے— فائل فوٹو: رائٹرز

وزارت اطلاعات و نشریات نے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مجوزہ میڈیا ریگولیٹری ادارے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے حوالے سے رابطے اور تبادلہ خیال کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

بدھ کے روز جاری کردہ ایک اعلامیے میں وزارت اطلاعات و نشریات نے بتایا کہ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب اس کمیٹی کی سربراہی کریں گے جس میں تین دیگر اراکین پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل سہیل علی خان، انٹرنل پبلسٹی ڈی جی منظور علی میمن اور ڈائریکٹوریٹ الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلیکیشنز ڈپٹی ڈائریکٹر مہرالنسا شامل ہیں۔

پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کیا ہے؟

حکومت کی تجویز کے مطابق پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی ایک مجوزہ ریگولیٹری ادارہ ہے جو میڈیا اور ان کے صارفین کے تمام قسم کی پیشہ ورانہ اور کاروباری ضروریات کا احاطہ کر سکتا ہے اور اس کا مقصد موجودہ ابتر ریگولیٹری ماحول اور متعدد باڈیوں کے ذریعے بکھری ہوئے میڈیا کو تبدیل کرنا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس تجویز کے مطابق پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی مکمل طور پر پاکستان میں پرنٹ، براڈکاسٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کے ضابطے کی ذمے دار ہو گی۔

اتھارٹی کے قیام کے لیے تیار کردہ ایک آرڈیننس کے تحت میڈیا ریگولیشن، کنٹرول یا بالواسطہ کنٹرول سے متعلق تمام سابقہ ​​قوانین کا خاتمہ کیا جائے گا اور پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور اس کے تمام کاموں کا قانونی احاطہ کرتے ہوئے تازہ قانون سازی کی جائے گی۔

اس تجویز میں کہا گیا کہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے تحت کیے جانے والے کچھ یا کسی فیصلے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانے کا سپریم کورٹ کے علاوہ کسی ادارے کے پاس اختیار نہیں ہو گا۔

مزید پڑھیں: ‏اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی اسد طور کو ایف آئی اے کا جاری نوٹس معطل کردیا

اس کام کے علاوہ اتھارٹی میڈیا ملازمین کی تنخواہ کا تعین کرے گی اور تنخواہوں کے حوالے سے تنازعات کو بھی حل کرے گی۔

میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی اس تجویز کو صحافیوں، سماجی کارکنوں اور حزب اختلاف کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

میڈیا تنظیموں نے پبلشرز، صحافیوں، براڈکاسٹر، ایڈیٹرز اور نیوز ڈائریکٹرز کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو مسترد کردیا ہے اور اسے آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کے خلاف غیر آئینی اور سخت قانون قرار دیا ہے اور میڈیا کے تمام طبقات کو کنٹرول کرنے کے لیے ریاستی کنٹرول مسلط کرنے کا اقدام قرار دیا ہے۔

اس تجویز کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ اس اختیار کا مقصد "آزادی صحافت اور اظہار رائے کے خلاف ہے اور میڈیا کارروائیوں پر ریاستی کنٹرول مسلط کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جیو نے حامد میر کو آف ایئر کرنے کے حوالے سے اپنا مؤقف واضح کردیا

پریس ریلیز میں لکھا گیا کہ مجوزہ آرڈیننس کا مقصد میڈیا کی آزادی روکنے اور اعلیٰ معلومات سے لیس بیوروکریسی کے ذریعے میڈیا کو اپنے کنٹرول میں رکھنا ہے، یہ تصور میڈیا پر وفاقی حکومت کی گرفت سخت کرنے کی کوشش ہے جس میں اس حقیقت کو نظرانداز کردیا گیا ہے کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا الگ الگ ادارے ہیں، ہر ایک اپنی اپنی خصوصیات اور متعلقہ ریگولیٹری قوانین رکھتا ہے۔

اعلامیے کے مطابق میڈیا اداروں نے ہر سطح پر پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے خلاف مزاحمت اور اس مقصد کے لیے مشترکہ ایکشن کمیٹی تشکیل دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اس کے علاوہ مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کی جانب سے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس کے قیام کے منصوبے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھرپور طاقت کے ساتھ اس کے خلاف مزاحمت کا عزم ظاہر کیا ہے۔

پیر کو جاری کردہ ایک بیان میں مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے آرڈیننس کے ذریعے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس قائم کرنے کی حکومتی کوشش 'غیر آئینی' اور آئین کے آرٹیکل 19 سے متصادم ہے جس میں آزادی اظہار رائے کی آزادی اور آزاد میڈیا کی ضمانت دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: صحافت کا سہرا: صحافی تو میں بن گیا، مگر بنا کیسے؟ (پہلی قسط)

انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو تحفظ کی فراہمی اور میڈیا کی آزادی یقینی بنانے کے لیے حکومت قانون سازی کرنے کے بجائے آزادی اظہار رائے پر مزید پابندیاں لگانے کے لیے ایک کالا قانون لانے پر تلی ہوئی ہے۔

سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن نے اپنے بیان میں کہا کہ اس آرڈیننس کے میڈیا اور آزادی اظہار پر جو تباہ کن اثر مرتب ہوں گے وہ ناقابل قبول ہیں۔

سول سوسائٹی اور میڈیا کے حقوق کا تحفظ کرنے والے گروپس نے آرڈیننس کو میڈیا مارشل لا قرار دیا ہے، اس کے ذریعے ذرائع ابلاغ ریاستی ترجمان بنیں گے یا پھر ان کے ماتحت ہوجائیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024