• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

پاکستان کو افغانستان میں سیکیورٹی خلا کے حوالے سے تشویش

شائع June 2, 2021
افغان امن عمل میں جمود کے باعث سیکیورٹی خلا کے خدشات بڑھ رہے ہیں— تصویر: اےا یف پی
افغان امن عمل میں جمود کے باعث سیکیورٹی خلا کے خدشات بڑھ رہے ہیں— تصویر: اےا یف پی

اسلام آباد: امریکا کے افغانستان سے انخلا کے بعد پیدا ہونے والے سیکیورٹی خلا کے حوالے سے پاکستان کی پریشانی بڑھ رہی ہے کیوں کہ متحارب افغان گروہوں کے مابین کامیاب مفاہمت کے پہلے سے ہی کم امکانات ہر گزرتے دن کے ساتھ مدھم ہوتے جارہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حالانکہ آئندہ چند روز میں بین الافغان مذاکرات کا ایک اور دور ہونے والا ہے لیکن پاکستانی حکام کسی اہم پیشرفت کے حوالے سے زیادہ پُرامید نظر نہیں آتے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان کے ولیسی جرگہ کے اسپیکر میر رحمٰن رحمانی سے بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ 'اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھا کر افغانستان اور خطے میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے ایک جامع، ٹھوس اور وسیع تر سیاسی تصفیے پر کام کریں'۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے امریکی انخلا اور خانہ جنگی کا ممکنہ خطرہ

واضح رہے کہ افغان امن عمل میں جمود کے باعث سیکیورٹی خلا کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔

گزشتہ برس ستمبر میں شروع ہونے والے امن مذاکرات میں اصولوں اور طریقہ کار کے بارے میں سمجھوتے اور وہ بھی جو معمولی امور پر مہینوں تک بحث کے بعد حاصل ہوا، کے علاوہ معمولی پیش رفت ہوئی ہے۔

صدر جو بائیڈن کے منصب سنبھالنے کے بعد امریکا کی جانب سے طالبان سے 2019 کے معاہدے پر نظرثانی کے اعلان اور امریکی افواج کے انخلا کے لیے 11 ستمبر کی ڈیڈ لائن مقرر کرنے سے یہ تعطل مزید بڑھ گیا۔

پاکستان اور بین الاقوامی برادری نے دونوں فریقین کو تنازع ختم کرنے کے لیے بقیہ مسائل پر بات چیت کے لیے دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانے کی متعدد کوششیں کیں لیکن اب تک کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔

اس ضمن میں ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست پر بتایا کہ پاکستان نے دیگر چیزوں کے علاوہ عبوری حکومت پر زور دیا تھا لیکن افغان صدر اشرف غنی کی سخت مخالفت کی وجہ سے یہ خیال زور نہ پکڑ سکا۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا پاکستان، دیگر ہمسایہ ممالک کیلئے ایک امتحان

دوسری جانب طالبان بھی اس اُمید پر امن معاہدے کے زیادہ خواہشمند نہیں کہ وہ میدان جنگ میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران طالبان نے متعدد فوجی اڈوں پر چڑھائی کے بعد کئی اہم اضلاع اپنے قبضے میں لے لیے ہیں اور بڑی تعداد میں افغان فوجیوں نے بھی طالبان کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

پاکستان کا اندازہ یہ ہے کہ امریکا کے انخلا کے بعد افغان سیکیورٹی فورسز میں ملک سنبھالنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

انخلا کے عمل میں تیزی

امریکا، فوجیوں کے انخلا کا 44 فیصد عمل مکمل کرچکا ہے، جب صدر جو بائیڈن نے انخلا کی مدت کا اعلان کیا تھا کہ اس وقت افغانستان میں 2500 امریکی اور 7 ہزار نیٹو فوجی موجود تھے۔

جس رفتار سے انخلا کا عمل جاری ہے اس نے بھی پاکستان کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔

حکام کا اندازہ ہے کہ امریکا، شاید جولائی یا اگست تک انخلا کا عمل مکمل کرلے اور کابل میں صرف اپنے سفارتخانے کی حفاظت کے لیے تھوڑی سے فوج چھوڑ جائے۔

جولائی تک امریکی انخلا کی رپورٹس کے بارے میں عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ قیاس آرائیاں ہیں کیوں کہ کچھ لوگ اندازہ لگارہے ہیں شاید امریکا یہ کام اپنے یوم آزادی تک کرلے۔

پاکستان کے خدشات

دوسری جانب پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ سیاسی تصفیے کے بغیر مکمل انخلا کے بعد خانہ جنگی مزید شدید ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں، اس سے مزید پناہ گزین پاکستان کی جانب آنے کا امکان ہے جس کی معیشت پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ یہ سیکیورٹی کا ڈراؤنا خواب بھی ثابت ہوسکتا ہے، افغانستان میں چھپے ہوئے پاکستانی دہشت گرد گروہ بھی صورتحال خراب کرسکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ پاکستان میں حملوں کے لیے بلوچ علیحدگی پسند اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) گٹھ جوڑ کرلیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024