فائزر ویکسین کورونا کی بھارتی قسم کے خلاف کچھ کم مؤثر قرار
فائزر/بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین بھارت میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی قسم سے ہونے والی بیماری سے بچانے میں دیگر اقسام کے مقابلے میں کچھ کم مؤثر ہے مگر پھر بھی اس سے لوگوں کو تحفظ ملتا ہے۔
یہ بات فرانس میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
فرانس کے پیسٹیور انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ویکسین کی افادیت میں معمولی کمی کے باوجود فائزر ویکسین ممکنہ طور پر کورونا کی اس نئی قسم کے خلاف تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔
تحقیق میں اس نئی قسم پر لیبارٹری پر ٹیسٹ کرکے نتائج مرتب کیے گئے اور اسے پری پرنٹ سرور BioRxiv میں شائع کیا گیا۔
تحقیق میں فرانس کے شہر اورلینز سے تعلق رکھنے والے طبی عملے کے 28 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔
ان میں سے 16 کو فائزر ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرائی گئی تھیں جبکہ 12 کو ایسٹرازینیکا ویکسین کی ایک خوراک دی گئی تھی۔
تحقیق کے مطابق جن افراد کو فائزر ویکسین کی 2 خوراکیں دی گئی تھیں ان میں بھارت میں دریافت ہونے والی قسم بی 1617 کی روک تھام کرنے کے لیے اینٹی باڈیز کی شرح میں 3 گنا کمی دریافت کی گئی۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ ایسٹرازینیکا ویکسین میں صورتحال مختلف تھی جس کو استعمال کرنے والے افراد میں اس نئی قسم کی روک تھام کرنے والی اینٹی باڈیز کی سطح بہت کم یا یوں کہہ لیں کہ ناکافی تھی۔
محققین نے بتایا کہ جن لوگوں کو ماضی میں کووڈ 19 کا سامنا ہوچکا ہے اور وہ افراد جن کو فائزر کی 2 خوراکیں دی جاچکی ہیں، ان میں اتنی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں جو بی 1617 کے خلاف تحفظ فراہم کرسکتی ہیں، مگر ان اینٹی باڈیز کی شرح برطانوی قسم کے خلاف اینٹی باڈیز سے 3 سے 6 گا زیادہ کم ہوتی ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس نئی قسم میں اینٹی باڈیز کے خلاف جزوی مزاحمت کی صلاحیت موجود ہے۔
دسمبر 2019 میں کورونا وائرس کی وبا سامنے آنے کے بعد سے اب تک وائرس کی متعدد اقسام دریافت ہوچکی ہیں جن میں برطانیہ، برازیل، جنوبی افریقہ اور بھارت میں دریافت ہونے والی اقسام زیادہ متعدی سمجھی جاتی ہیں۔
مانا جاتا ہے کہ بی 1617 دیگر اقسام سے زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے جو اب تک دنیا کے 50 سے زیادہ ممالک تک پہنچ چکی ہے۔