بچوں میں موٹاپے کی شرح دگنی ہونے کا خدشہ، ماہرین کا انتباہ
دنیا کو کورونا وائرس کی وبا کے ساتھ ساتھ موٹاپے کی وبا کا بھی سامنا ہے جس کے اثرات اتنے ڈرامائی تو نہیں لیکن یہ وبا بھی روزانہ ہزاروں افراد کی ہلاکت اور معذوری کا سبب بن رہی ہے۔
کورونا وائرس اور موٹاپے کی وباؤں کے درمیان فرق صرف اتنا ہے کہ متعدی مرض چند دنوں یا ہفتوں میں انسان کی جان لے لیتا ہے جبکہ موٹاپا کسی بھی انسان کو آہستہ آہستہ ناقابل علاج بیماریوں میں مبتلا کرکے معذور اور موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔
موٹاپے کی وبا پر قابو پانے کے لیے مصنوعی میٹھے مشروبات اور فاسٹ فوڈ کو عوام کی رسائی سے دور رکھنے کے اقدامات کرنے پڑیں گے، کورونا وائرس کی وبا کے باعث بچوں میں موٹاپے کی شرح دگنی ہونے کا خدشہ ہے۔
ان خیالات کا اظہار پاکستانی اور بین الاقوامی ماہرین امراض پیٹ وجگر نے ورلڈ ڈائیجسٹو ہیلتھ ڈے 2021 کے موقع پر آن لائن سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
پاک جی آئی اینڈ لیور ڈیزیز سوسائٹی کے زیرتحت ہونے والے آن لائن سیمینار سے بھارتی پروفیسر اجے ڈوسیجا، سعودی عرب سے ڈاکٹر ماجدہ بخاری، بنگلہ دیش سے پروفیسر مامون المحتاب، پی جی ایل ڈی ایس کی صدر پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ کامانی، سوسائٹی کے سرپرست اعلی ڈاکٹر شاہد احمد، جناح اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر نازش بٹ، آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹر اسما احمد اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔
بھارتی ماہر امراض پیٹ وجگر پروفیسر اجے ڈوسیجا کا کہنا تھا کہ اگرچہ کورونا وائرس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس سے بچاؤ ممکن ہے لیکن اس کے باوجود یہ ناقابل یقین رفتار سے پھیل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موٹاپے کے متعلق سائنسی ثبوت موجود ہیں کہ موٹاپے سے بچا جاسکتا ہے، موٹاپے سے بچاؤ نہ صرف صحت مند طرز زندگی اختیار کرکے ممکن ہے بلکہ اب ادویات اور سرجری کے ذریعے بھی اس بیماری پر مکمل طور پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ موٹاپا ذیابطیس اور بلڈ پریشر کے مرض کا سبب بنتا ہے لیکن اب ایسے ثبوت موجود ہیں کہ موٹاپا ختم کرکے ان دونوں بیماریوں سمیت کئی خطرناک بیماریوں سے نجات بھی ممکن ہے۔
پی جی آئی ڈی ایس کی صدر اور لیاقت نیشنل اسپتال سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ کمانی نے کہا کہ ورلڈ گیسٹرواینٹرولوجی آورگنائزیشن اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کو اس وقت دو عالمی وباؤں کا سامنا ہے، جس میں کورونا کی وبا پر تو شاید جلد ہی قابو پالیا جائے لیکن موٹاپے کی وبا کے متعلق نہ لوگوں میں اتنا شعور ہے اور نہ ہی اس کے جلد ختم ہونے کا کوئی امکان ہے۔
پروفیسر لبنیٰ کمانی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر تیسرا فرد کا جسمانی وزن زیادہ ہے جبکہ 25 فیصد افراد موٹاپے کی بیماری کا باقاعدہ شکار بن چکے ہیں، پاکستان میں اسکول جانے والے 20 فیصد بچے موٹاپے کا شکار ہیں اور کورونا کی وبا کے باعث اس شرح کے دگنے ہونے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ موٹاپا نہ صرف ذیابطیس، ہائی بلڈ پریشر، دل کے دوروں، فالج بلکہ جگر کے ناکارہ ہونے کا سبب بھی بن رہا ہے بلکہ موٹاپے کے شکار افراد کی قوت مدافعت کم ہونے کے باعث وہ کورونا اور دیگر متعدی امراض میں بھی مبتلا ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرض کے متعلق آگاہی پھیلائی جائے اور عوام کو مصنوعی میٹھے مشروبات سمیت دیگر نقصان پہنچانے والی غذائی اشیاء سے دور رکھنے کے اقدامات کئے جائیں۔
پی جی ایل ڈی ایس کے سرپرست اعلی ڈاکٹر شاہد احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں کھیلوں اور ورزش کی سہولیات ناپید ہو چکی ہیں جبکہ جنک فوڈ اور کولڈڈرنکس کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے موٹاپے کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے، لاک ڈاون جیسے اقدامات کی طرز پر موٹاپے پر قابو پانے کے لیے بھی لاک ڈاؤن لگانا ضروری ہو چکا ہے۔
ویبینار کی موڈریٹر اور جناح اسپتال کراچی سے وابستہ ماہر صحت ڈاکٹر نازش بٹ کا کہنا تھا کہ ورلڈ گیسٹرو انٹرالوجی اورگنائزیشن ہر سال 29 مئی کو ورلڈ ڈائجسٹو ہیلتھ ڈے بناتی ہے جس کا مقصد عوام میں پیٹ کی بیماریوں کا سبب بننے والے عوامل کو اجاگر کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سال اس عالمی دن کی تھیم موٹاپے کی عالمی وبا کے حوالے سے ہے، میڈیا سے گزارش ہے کہ موٹاپے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں کے متعلق شعور پیدا کیا جائے، اسلام بھی موٹاپے کو کم کرنے کی ہدایت کرتا ہے، ورزش کرنا اور خود کو جسمانی طور پر چاق و چوبند رکھنا عین اسلامی اور عبادت کے مترادف ہے۔