اردو میں عجیب و غریب اضافتوں اور تکرار کا مسئلہ
جب ہم لوگوں کو چھینکنے کے بعد 'شکر الحمد للہ' کہتے ہوئے سنتے ہیں تو ہمیں بہت عجیب سا لگتا ہے۔ وہ اس لیے کہ اگرچہ 'الحمد للہ' کے لفظی معنی شکر کے تو نہیں، لیکن یہ دراصل کلمہ تشکر ہی تو ہے، اس لیے ہمیں الحمد للہ کے ساتھ 'شکر' کہنا اضافی لگتا ہے۔
غور کیجیے تو اردو میں ایسی بہت سی عجیب و غریب 'اضافتیں' اور تکرار ہماری روزمرہ کی گفتگو میں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں جو بعض اوقات خاصی مضحکہ خیز صورتحال بھی پیدا کردیتی ہیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ کتنے ہی لوگوں کو صرف لفظ 'زبانی' کہہ دینے سے اطمینان نہیں ہوتا اور وہ 'منہ زبانی' کہنے پر 'یقین' رکھتے ہیں، حالانکہ 'زبانی' کے معنی یہی ہیں کہ زبان یا منہ سے کہا ہوا، نہ جانے کس بھلے مانس کو 'زبانی' کو 'منہ زبانی' کرنے کا جنون ہوا اور اب کتنے لوگ جانے اَن جانے اس عجیب ترکیب کے اسیر دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے ہی گزشتہ دنوں ہم نے ایک صاحب کو 'کھانے کی بھوک' کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا! بھوک تو ظاہر ہے کھانے کی ہی ہوتی ہے، ممکن ہے کہ انہیں کھانے کے علاوہ بھی کسی اور چیز کی بھوک لگتی ہو، تبھی انہوں نے بھوک کے ساتھ 'کھانے کی' کہنا بھی ضروری سمجھا۔
ایسی ہی ایک اور غیر ضروری اضافت 'بہت زار و قطار' بھی ہے، جبکہ 'زار و قطار' میں رونے کی وہ شدت موجود ہے، جس کے لیے 'بہت' کا غیر ضروری لاحقہ لگایا گیا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے 'بہتات' کی شدت پر بھروسہ نہ کرکے اس کے ساتھ بھی 'بہت' کا غیر ضروری اضافہ کردیا جاتا ہے، حالانکہ لفظ 'بہتات' کے معنی ہی 'کثرت' یا 'فراوانی' کے ہیں۔
یہ 'اہلِ محلہ والے' کیا ہوتا ہے؟
اردو کے کچھ مرکبات ایسے ہیں، جن میں باقاعدہ اور مکمل معنی موجود ہیں لیکن بہت سے بولنے والوں کا مافی الضمیر شاید اس سے پورا نہیں ہوتا، تبھی وہ 'ہم آواز' جیسی خوبصورت اور عام فہم ترکیب میں بھی 'کے ساتھ' کا ایک بے تُکا سا اضافہ کرکے اپنی بات پوری کرتے ہیں، یعنی 'ہم آواز کے ساتھ' جب کہ 'ہم آواز' کے معنی آواز کے ساتھ ہونا ہی ہے اس لیے 'ہم آواز' کہنا کافی ہے اور اسی میں 'ساتھ' کا مطلب بھی پوشیدہ ہے۔
پڑھیے:اردو لکھتے ہوئے کی جانے والی 12 بڑی غلطیاں
اسی طرز کی دیگر غلطیوں میں 'اہلِ محلہ کے بجائے 'اہل محلہ والے' اور 'اہل وطن' کے بجائے 'تمام اہلِ وطن' لکھنا بھی نہ جانے احباب کو کیوں مرغوب ہے۔ اسی طرح لفظ 'بہ' میں 'سے' کے معنی موجود ہیں، جیسے 'بہ خیریت' اور 'بہ خوبی' وغیرہ، یعنی 'خیریت کے ساتھ' اور 'خوبی کے ساتھ'۔ اس کے ساتھ 'سے' لکھنا نہ صرف غلط ہے بلکہ کافی بھونڈا بھی معلوم ہوتا ہے۔
یہی سلوک بہت سے لکھنے والے لفظ 'مع' سے بھی روا رکھتے ہیں، اس میں 'کے ساتھ' کے معنی موجود ہیں اس لیے 'مع اہل و عیال' کے معنی 'گھر والوں کے ساتھ' کے ہیں، اسے 'مع اہل وعیال کے ساتھ' لکھنا قطعی طور پر غلط ہے (اور 'مع' کو 'معہ' اور 'بمعہ' لکھنا بھی بالکل درست نہیں ہے)۔
'بے فضول' اور 'ناجائز تجاوزات' کا قضیہ
کچھ لوگوں کو صرف 'فالتو' اور 'فضول' کہنے سے تسلی نہیں ہوتی، تو وہ 'بے وجہ' سے متاثر ہوکر 'بے فالتو' اور 'بے فضول' جیسی غلط تراکیب گڑھ کر اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غلطی تو اس قدر عام ہے کہ کبھی ہمیں بھی ایسا لگتا ہے کہ اگر 'بے فضول' اور 'بے فالتو' نہ کہا تو لوگ نہیں سمجھیں گے، حالانکہ فالتو' اور 'فضول' اپنے معنوں میں مکمل ہیں۔ 'بے' کا لاحقہ جوڑ دینے سے 'فالتو' اور 'فضول' جیسے الفاظ کے اصل معنی الٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے، جیسے وجہ کے ساتھ 'بے' لکھنے سے 'وجہ' کی نفی ہوجاتی ہے۔
ایسے ہی خبروں میں آئے روز در آنے والا ایک لفظ 'تجاوزات' ہے جس میں مکمل 'ابلاغ' موجود ہے، یعنی تجاوز کیا ہوا۔ اس کو 'ناجائز تجاوزات' لکھنے سے گمان ہوتا ہے کہ شاید تجاوزات کے معنی تجاوز کیا ہوا نہیں، بلکہ کچھ اور ہیں، ساتھ ہی منطقی طور پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پھر 'جائز تجاوزات' بھی کچھ ہوتی ہیں؟
'ناجائز تجاوزات' جیسی دیگر غلطیوں میں 'آنے والا مستقبل' اور 'پیچھے کا بیک گراؤنڈ' بھی شامل ہیں۔ جیسے ہماری گناہ گار سماعتوں نے دکان کے ایک ناخواندہ ملازم سے 'اوور ٹائم' کے لیے 'نائٹ لگانے' کی اصطلاح کا حشر 'رات کو نائٹ لگانے' جیسا ہوتا ہوا بھی سنا۔ 'ساحل سمندر کے کنارے' اور 'شعبہ اردو ڈیپارٹمنٹ' بھی ایسی ہی غلطیوں کی مثال ہیں۔ ساحل کے تو معنی ہی کنارے کے ہیں، اس لیے 'سمندر کے کنارے' کہیے یا 'ساحل سمندر' کے معنی پر بھروسہ کیجیے اور انگریزی کا لفظ 'ڈیپارٹمنٹ' کے معنی شعبے کے ہیں۔ اس لیے دونوں میں سے کسی ایک لفظ کا استعمال کرنا چاہیے۔
'دوبارہ دُہرا دیجیے' کہنا درست ہے؟
اپنے اندر مکمل معنی رکھنے والا ایک لفظ 'بحال' بھی ہے جس کے معنی ہی دوبارہ اپنی جگہ پر یا پچھلی حالت میں واپس آنا ہے اس لیے اسے 'دوبارہ بحال' کہنا اور لکھنا سراسر غلط ہے۔ اسی طرح اکثر صرف 'دُہرانا' کہنا کافی ہوتا ہے، جب ہم کسی سے فون نمبر سن کر لکھتے ہیں تو ہمارا اسے یہ کہنا کہ دوبارہ دُہرا دیجیے غلط ہوگا، ہمیں کہنا چاہیے کہ ذرا نمبر دُہرا دیجیے، البتہ جب ہم دوسری کے بعد تیسری بار یہ کہیں، تب یہ ترکیب کسی حد تک درست ہوسکتی ہے کہ 'دوبارہ دُہرا دیجیے‘۔
گزشتہ دنوں 'بی بی سی' نے اپنی ایک خبر کی سرخی میں شدت پیدا کرنے کے واسطے 'آکسیجن کی قلت کا بحران' جیسی عجیب و غریب ترکیب جَڑ دی۔ یہاں 'قلت' اور 'بحران' میں سے کسی ایک لفظ کا استعمال کرنا کافی ہوتا اور 'شدید قلت' یا 'شدید بحران' لکھ کر بہ آسانی صورتحال کی سنگینی کا ابلاغ کیا جاسکتا تھا۔
'سب سے بہترین' اور 'تاقیامت تک'
معنوی تکرار کی ایک بڑی غلطی ہم اور آپ 'بہترین' کے ساتھ بھی کرتے ہیں، جب ہم 'سب سے بہترین' کہتے ہیں۔
جی بالکل!
لفظ 'بہترین' کا مطلب ہی یہ ہے کہ سب سے اچھا، اس لیے بہترین کے ساتھ 'سب سے' کا اضافہ کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ جیسے ہمیں 'بلند ترین' کو 'سب سے بلند ترین' اور 'تیز ترین' کو 'سب سے تیز ترین' نہیں لکھنا چاہیے، تکنیکی اعتبار سے 'بہترین' کا معاملہ بھی بالکل ایسا ہی ہے۔
ایسا ہی ایک اور لفظ 'تا' ہے، جس کے معنی 'تک' کے ہیں۔ 'تاقیامت' یا 'تازندگی' کہہ دینا کافی ہے، 'تاقیامت تک' یا 'تازندگی تک' لکھنا سراسر غلط ہے۔ ہمارے گریجویشن کے زمانے میں 'بین الاقوامی تعلقات' کے استاد فخر الدین صاحب نے '1947ء سے تاحال' میں سے 'سے' حذف کرایا، تو شروع شروع میں بہت عجیب لگا، لیکن پھر یہ درستی ذہن میں ایسی راسخ ہوئی کہ اب جہاں 'تاحال تک' یا 'تا' کے ساتھ 'تک' دیکھ لیں، تو بہت کھٹکتا ہے۔
پڑھیے: اردو اپنے آپ بدل جائے گی، اِسے آپ نہ ’بدلیے‘
بہت سے لکھنے والے 'برائے خواتین' کہہ دینے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ 'برائے خواتین کے لیے' کہہ کر اپنے تئیں اسے بامعنی کرتے ہیں۔ 'عالمی یومِ داستان گوئی کا دن' کی ترکیب کسی نوآموز یا زبان پر غور نہ کرنے والے خبر نگار کی کاوش میں سامنے آئی اور باقاعدہ ایک نجی ٹی وی کی اسکرین کی زینت بھی بنی!
یہاں 'عالمی یوم داستان گوئی' یا 'داستان گوئی کا عالمی دن' کہہ دینا کافی ہوتا۔ یہ امر ایسی ہی غلطیوں کا تسلسل ہے جس میں 'یومِ اقبال ڈے'، 'یومِ عید کا دن'، ماہ رمضان کا مہینہ، 'لیلۃ القدر کی رات' جیسے مرکبات شامل ہیں۔ انہیں یومِ اقبال، یومِ عید یا عید کا دن، ماہ رمضان یا رمضان کا مہینہ اور لیلۃ القدر وغیرہ کہہ دینا کافی ہے۔
ہمارے کچھ بھولے طالب علم اپنے تئیں اچھا کرکے بولنے اور لکھنے میں 'جامعہ کراچی یونیورسٹی' بھی لکھ جاتے ہیں۔ مختلف نجی جامعات کے مخفف میں 'انسٹیٹیوٹ' کا 'آئی' موجود ہے، پھر بھی لوگ اس کے نام کے بعد یونیورسٹی لگا لیتے ہیں جو ہمارے خیال میں درست نہیں۔
اسی طرح مختلف بینکوں کے ناموں کے مخفف میں بینک کا 'بی' موجود ہونے کے باوجود لفظ 'بینک' کی اضافت دھڑلے سے کی جاتی ہے اور یہ کوئی اور نہیں متعلقہ بینک خود کرتے ہیں۔
'میں نے آنا ہے' اور 'انہوں نے بتانا ہے' میں کیا غلطی ہے؟
بہت سے لوگ 'میری اپنی آپ بیتی' کہتے ہیں۔ وہ یہ غور نہیں کرتے کہ میری کہہ دیا تو اپنی کہنے کی بھلا کیا ضرورت۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ وہ اس کی اپنی آپ بیتی ہے، تو یہاں بھی 'اپنی' کہنا بالکل غیر ضروری ہے۔
'میں نے آنا ہے۔'، 'انہوں نے بتانا ہے۔'،'ہم نے جانا ہے۔'
اس طرز کے غلط جملے اب اہلِ زبان گھرانوں کی زبان پر بھی چڑھ گئے ہیں کیونکہ ہمارے اردگرد کا ماحول ہی ایسا ہوگیا ہے اور اصلاح کرنے والے اساتذہ بھی ذرا کم کم ہیں۔ ایسے جملوں میں 'میں نے' کے بہ جائے 'مجھے'، 'انہوں نے' کے بہ جائے 'انہیں' اور 'ہم نے' کے بہ جائے 'ہمیں' استعمال کرنا درست ہوگا، کیونکہ جملے کے اگلے حصے میں موجود 'فعل' کے 'نا' سے معنی مکمل ہو رہے ہیں، اس لیے ایسے جملوں میں فعل کے ساتھ 'نے' کا استعمال بالکل نہیں کرنا چاہیے۔
'جناب' لکھیے یا 'صاحب'
اگر آپ کسی شخصیت کا نام لکھتے ہوئے انہیں عزت اور رتبہ دینے کی خاطر 'جناب فلاں صاحب' لکھتے ہیں تو اساتذہ کے نزدیک یہ بالکل بھی درست نہیں۔ اس لیے آئندہ جب کسی کے نام کے ساتھ 'جناب' کا سابقہ لکھیے تو صاحب کہنے کا تکلف نہ کیجیے اور اگر ان کے نام کے ساتھ 'صاحب' کا لاحقہ جوڑ دیجیے تو پھر 'جناب' سے دست بردار ہوجائیے گا، کیونکہ 'جناب' اور 'صاحب' یکساں معنی دیتے ہیں۔ ایسے ہی 'کبھی' کے ساتھ کسی صورت میں 'بھی' نہیں جڑے گا، کیونکہ 'کبھی' میں پہلے ہی 'بھی' شامل ہے۔ ایسے ہی 'ابھی بھی' کہنا بھی غلط العام ہے، درست ترکیب 'اب بھی' ہے۔
پڑھیے: ’ب سے برگر... پ سے پیزا!‘
کسی چیز سے 'استفادہ کرنا' درست ہے، 'استفادہ حاصل کرنا' بالکل غلط ہے۔ معروف ادیب انور احسن صدیقی کے کالموں کے صدقے ہماری یہ تربیت بھی ہوگئی کہ 'مذبح خانے' کی ترکیب میں 'خانہ' سراسر غیر ضروری ہے، صرف 'مذبح' کافی ہے۔ اسی طرح معروف ماہرِ لسانیات ڈاکٹر رؤف پاریکھ سے ہر ملاقات میں ہی ہم جیسے طالب علم کی اردو کی کچھ نہ کچھ اصلاح ہوتی رہی ہے، جیسے ہم نے ایک بار کسی کتاب کے ذکر پر 'ہے گی' کہہ دیا، تو انہوں نے وہیں گرفت فرمائی اور بولے کہ 'گی' اضافی ہے۔
ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ آپ یہ تحریر پڑھنے کے بعد کبھی 'پھولوں کا گل دستہ' نہ لکھیں کہ 'گل دستہ' میں معنی پورے ہیں، گُل کے معنے پھول کے ہی تو ہیں۔ 'سنگِ مرمر کا پتھر' کہنے کے بجائے 'سنگِ مرمر' پر اکتفا کریں، کیونکہ اس میں پہلے ہی پتھر بہ الفاظ 'سنگ' موجود ہے۔ بالکل ایسے ہی 'آبِ زم زم' پکارنا کافی اور درست ہے، اسے 'آب زم زم کا پانی' ہرگز نہ لکھیے، 'آب' کے معنی پانی کے ہی ہیں!
اسی طرح مساجدوں، علماؤں، حالاتوں، واقعاتوں میں مسجد سے مساجد، عالم سے علما، حالت سے حالات اور واقعے سے واقعات وغیرہ دراصل جمع ہی ہیں، اس لیے ان جمع کی مزید 'جمع' بنانے کی کوشش ہرگز نہ کیجیے۔
تبصرے (6) بند ہیں