مسئلہ کشمیر پر بھی او آئی سی کی مؤثر حمایت حاصل کرنی چاہیے، شیریں مزاری
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی مدد سے پاکستان کی کوششوں سے اقوام متحدہ میں فلسطین کے حق میں منظور ہونے والی قرار داد کو نہایت اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے لیے بھی او آئی سی کی مدد حاصل کی جائے۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے جنیوا میں گزشتہ روز فلسطین کے حق میں قرارداد پاس کی جو بہت اہمیت کی حامل ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کی فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر 'اقوام متحدہ کی تفتیش' کا خیرمقدم
ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کے حوالے سے پہلے بھی قرار دادیں پاس ہوتی رہی ہیں جن میں ذیلی قرارداد ہوتی تھی جو ایک دو سال بعد ختم ہوجاتی تھی لیکن متفقہ پاس ہونے والی قرار داد ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے او آئی سی کی جانب سے قرارداد پیش کی اور تمام خطوں کے ممالک نے اس کی حمایت کی لیکن چند ممالک ایسے تھے جو حقوق کے چمپیئن بنتے ہیں مگر وقت آنے پر اس کا ساتھ نہیں دیا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ قرار داد کہتی ہے کہ آزادانہ تحقیقات ہوں گی اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل جنیوا کے صدر کو رپورٹ کرے گی کہ اسرائیل، مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کیا کر رہا ہے اور جو عالمی انسانی قوانین کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اس کو رپورٹ کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق کار انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت دیگر تیسرے ممالک کو تجاویز دے گا کہ وہ انسانی کا احترام کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ ان کے جو بھی تعلقات ہیں اس سے فلسطینی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک بہت اہم قدم یہ ہے کہ تیسری ریاستوں کو جو ذمہ داری دی جائے گی اس کو پورا کرنا ہوگا، اس کے ساتھ اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل اس کمیشن کو سہولت دے گا اور لاجسٹک اور ٹیکنیکل مدد فراہم کرے گا۔
شیریں مزاری نے کہا کہ اب امریکا اور دیگر مغربی ممالک جو اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتے ہیں انہیں یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے ہتھیار فلسطینیوں کے خلاف استعمال نہیں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی حکومت نسل پرست ہے لیکن فسلطینیوں کی جبری بے دخلی روک دی جائے گی، اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ جنیوا کنونشن کے مطابق جنگی جرم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے اب اسلام کے عقائد پر حملے کیے ہیں، جب انہوں نے رمضان میں بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ میں اذان روکنے کی کوشش کی اور روزہ داروں کو مسجد کے صحن میں روزہ کھولنے کی اجازت نہیں دی، یہ صرف فلسطینیوں پر حملہ نہیں بلکہ شعائر اسلام پر براہ راست حملہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ پر اسرائیلی حملے 'جنگی جرائم' ہوسکتے ہیں، سربراہ یو این ایچ آر سی
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس قرار داد اور کمیشن کو اختیارات دیے گئے ہیں جو پاکستان نے او آئی سی کی حمایت سے پیش کی تھی اور اب پاکستان کو بھارت اور کشمیر پر بھی اسی طرح کی قرارداد پیش کرنی چاہیے کیونکہ اس کی بہت اہمیت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن کی کشمیر کے حوالے سے دو قراردادیں ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کشمیر پر بھی قرار داد کے لیے اسی طرح فعال انداز میں او آئی سی سے مدد لے۔
قبل ازیں پاکستان نے اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی تفتیش کے اعلان کا خیرمقدم کیا تھا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) نے ایک روز قبل فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور جنگی جرائم کی تفتیش کی منظوری دی تھی۔
قراراداد کی منظوری
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں قرار داد کو اکثریت رائے سے منظوری ملی، کونسل کے 47 میں سے 27 ارکان نے حمایت میں ووٹ کاسٹ کیا، جس کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
قرار داد میں کہا گیا کہ اسرائیل اور فلسطین کے معاملے پر مشرق وسطیٰ میں ہونے والی انسانی بدسلوکیوں کی ’بنیادی وجوہات‘ کی تفتیش کی ضرورت ہے۔
قرارداد میں اسرائیل کی جانب سے حالیہ حملوں کے تناظر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی تفتیش کا ذکر کیا گیا ہے۔
تفتیش کے لیے دی گئی درخواست کا متن پاکستان نے تیار کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ تفتیش کاروں کو فلسطین میں مسلسل اور منظم تشدد، امتیازی سلوک اور جبر کی بنیادی وجوہات کو جاننے کے لیے تفتیش کرنی چاہیے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ تفتیش کاروں کو قانونی شواہد اکٹھے کرکے وہاں بدسلوکیوں اور تشدد میں ملوث اور قصور واروں کی شناخت کرنی چاہیے اور ان کا احتساب کیا جانا چاہیے۔
پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد میں بعض ممالک پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اسلحہ کی منتقلی سے دور رہیں، کیوں کہ اس عمل سے اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ وہ اسلحہ سنگین خلاف ورزیوں میں استعمال ہوگا۔
اجلاس میں کیا ہوا تھا؟
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 27 مئی کو ہونے والے اجلاس میں ادارے کی سربراہ مشیل باشیلے نے فلسطین پر اسرائیلی حملوں میں عام شہریوں کی اموات اور زخمی ہونے کی خبروں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ اسرائیلی حملے جنگی جرائم ہو سکتے ہیں۔
اجلاس کے دوران انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حماس کی جانب سے کیے جانے والے راکٹ حملے بھی عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔
اجلاس میں ووٹنگ سے قبل جنیوا میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کی سفیر میراو ایلون شہر نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اصرار کیا کہ مذکورہ قرارداد کونسل کی جانب سے اسرائیلی تعصب کی مثال ہے۔
انہوں نے اصرار کیا کہ قرارداد کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی اس کا انسانی حقوق سے کوئی واسطہ ہے، ساتھ ہی انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ قرارداد کے حق میں ووٹ نہ ڈالیں، کیوں کہ ان کے ووٹ حماس کی حمایت میں جائیں گے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کونسل کی سربراہ مشیل بارشیلے نے اجلاس میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جن عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا ان کے عسکری استعمال کے کوئی شواہد نہیں ملے اور نہ ہی اس بات کے ثبوت ملے کہ ان عمارتوں میں مسلح افراد کی میزبانی کی جاتی رہی ہے۔
اجلاس میں فلسطین کے وزیر خارجہ نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ ’نسلی تعصب کے نظام‘ کو پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کے پاس نہ صرف اپنا دفاع کرنے کا حق ہے بلکہ وہ اپنی زمین پر قبضے کو ختم کرانے کے لیے مزاحمت کا حق بھی رکھتے ہیں۔