صحافت کا سہرا: صحافی تو میں بن گیا، مگر بنا کیسے؟ (پہلی قسط)
یعنی یہ سہرا لکھا کس نے؟ باندھا کس نے؟ پہنایا کس نے؟ باالفاظ دیگر چڑھایا کس نے؟ یہ شہ کس نے دی اور یہ کارستانی کن کن لوگوں کی ہے وغیرہ وغیرہ کی تو ایسی کی تیسی، بھلا بتاؤ! یہ بھی کوئی مسئلہ ہے 4 قسطوں کے بجائے 40 سال کی اس رام لیلا کو پہلی قسط میں ہی سمیٹ لیں کہ یعنی یوں سمیٹنا بظاہر آسان ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا ہوا نہیںـ
یہ اس قدر مشکل کام کیونکر بن گیا؟ شروع میں تو مجھے خود بھی اس کا پتا نہ تھا۔ پہلا پیراگراف بار بار لکھا اور بار بار کاٹا، اس ادھیڑ بن میں کئی گھنٹے لگےـ ذہن قفل بند تھا اور چابی میرے پاس نہ تھی، آخرکار خیال آیا کہ بقراط و سقراط بننے کی چنداں ضرورت نہیں جو کچھ بیتی ہے اور جس جس نے تمہارے ساتھ جو جو کیا ہے، بنا کسی لگی لپٹی کے بس سچ سچ لکھ ڈالو کیونکہ لکھو تو سچ لکھو ورنہ نہ لکھو اور نہ پھنسو کیونکہ تم تو چلے جاؤ گے پر تمہاری تحریر رہ جائے گی اور وہ تمہارے جانے کے بعد بھی منہ چڑھائے گی، کہیں کا نہ چھوڑے گی۔
میں نے بھی بس یہی کیا ہے اور محض، سرغنوں اور کارسازوں کے نام اور ان کے کام جس ترتیب سے ذہن میں آتے گئے قلم بند کردیے ہیں اور اس سے زیادہ کچھ اور نہیں کیا ہے، باقی رہے نام اللہ کا۔
پڑھیے: پاکستانی آزادی صحافت
ویسے تو جامعہ کراچی میں زیرِ تعلیم میرے سینئر ہم عصر اور کل وقتی صحافی احمد سعید قریشی کا اصرار رہتا تھا کہ 'تم لکھا کرو، ہفتہ وار کالم تو کالج کے زمانے یعنی 72ء-1971ء سے ہی لکھتے بھی رہے ہو' (اس ہفتہ وار کالم کا 'راز' ذرا ٹھہر کر)، لیکن سچ یہ ہے کہ مفت میں کام کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔
1975ء میں جامعہ کراچی سے فارغ ہوتے ہی احمد سعید قریشی کی بات مان لی اور ان کے اخبار 'جسارت' کے دفتر پہنچاـ مدیر صلاح الدین صاحب کو احمد سعید نے یقیناً اچھی طرح سے بریف کر رکھا تھا کہ شفیع آئیں گے، اور انہوں نے بھی، 'آئیے آئیے تشریف لائیے' کی گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کیا پھر کرسی اور چائے کی پیش کش کی اور فوراً بعد، اے پی اور رائٹرز کی ایک ہی خبر کی 2 علیحدہ علیحدہ 'نیوز فیڈ' دیتے ہوئے کہا 'ترجمہ کر دیجیے اور بتائیے گا کہ دونوں میں سے کون سی اچھی لگی، کیوں لگی اور کیا فرق لگا؟'
شاید صلاح الدین صاحب ترجمے کے ساتھ ساتھ میرا مزاج، دماغ اور رجحان بھی پڑھنا چاہتے تھے لیکن مجھے خود یہ گُر سیکھنے سمجھنے میں کافی عرصہ لگا کہ مودّب طریقے سے یہ کام کیسے کرتے ہیں، ویسے یہ الگ بات ہے کہ میں نکلا تھا 'صحافتی پھنّے خاں' بننے۔
صلاح الدین صاحب کے کمرے سے باہر نکل کر آیا تو بڑے سے کمرے میں اپنی ڈے شفٹ پر آئے کوئی درجن بھر صحافیوں کے ساتھ براجمان، بھائی زاہد بخاری (سابق صدر طلبہ یونین جامعہ کراچی) پر نظر پڑی وہ بھی تپاک سے ملے اور کسی تعجب کے اظہار اور استفساری تمہید کے اپنی ٹیبل کے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولے 'کیا خدمت کروں؟'
'مجھے ترجمے کے لیے کاغذ اور پین یا پینسل دے دیجیے'، میرا فوری جواب تھا۔ زاہد بخاری نے مجھے قرینے سے کٹے 'نیوز پرنٹ پیپر' کا جتھ دے دیا اور ساتھ ہی بڑے سے کلپ والا 'رائٹنگ بورڈ' بھی۔ گویا اخبار کے دفتر میں بیٹھ کر 'نیم پخت صحافی' بننے کا یہ باضابطہ آغاز تھا اور جانے کیوں ہماری گردن میں اکڑ سی آرہی تھی۔
پڑھیے: پاکستانی صحافت: آگ کا دریا
ہفتے بھر کے 5 دن میں جسارت جانے لگا اور صلاح الدین صاحب کو نیوز پرنٹ والے کاغذ پر لکھ کر، لفافے میں بند کرکے یہ نوٹ بھی دے دیا کہ 'سنیچر یا اتوار کو بھی ترجمہ وغیرہ کرانے کی ضرورت ہو تو بُلا لیجیے گا، تکلّف ہرگز نہ کیجیے گا‘۔
جس کے بعد مشفق مدیر اخبار نے نوٹ نکال کر پڑھنے کے بعد جواباً مجھے صرف شفقت والی مسکراہٹ دی۔ میں بھی دل ہی دل میں مسکراتا اور سوچتا چلا گیا کہ چلو 'ہونڈا 150 کے پیٹرول کا خرچ، شام کو 'ولیج' میں کافی اور ہفتے میں ایک آدھ بار 'برنس روڈ پر وحید کے سیخ کباب یا نہاری وغیرہ' کا بندوبست تو ہو ہی گیا اور بابو جی یا امّی سے پاکٹ منی مانگ کر نہ خود شرمندہ ہوں گے اور نہ ہی انہیں کریں گے۔
مگر یہ خواب تھے اور خواب ہی رہے۔
ہرچند کہ دیگر اخبارات میں جاکر بھی خود کو متعارف کروایا اور مختلف طریقوں سے یہ جتایا اور بڑے اعتماد کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ مابدولت صحافت میں نئے جھنڈے گاڑھنے، نت نئے 'آئیڈیاز' دینے، اوریجنل رائٹنگ سے لے کر انگریزی سے اردو میں بڑا معیاری اور حسب ضرورت بامحاورہ ترجمہ کرنے کے علاوہ پُرکشش سرخیاں، دل لبھاتی شہہ سرخیاں، لال وگلال جھلکیاں وغیرہ لکھنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں، خم ٹھوک کاپی رائٹنگ اور کمر توڑ 'ون لائنر' لکھنے کے لیے بھی فدوی پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔
مگر بھلا ہو ان تمام ناقدروں کا جن کے کان پر جوں تک نہ رینگی یعنی جو خواب فوراً دیکھنے شروع کردیے تھے ان پر اوس پڑنے لگی اور ان میں سے کوئی ایک بھی پورا ہوتا نظر نہ آتا تھا، مالی پذیرائی کا بھی کہیں سے کوئی عندیہ تک نہ تھا۔ اسی وقت مابدولت کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ واقعی 'بندہ مزدور کے اوقات بہت تلخ' بھی ہوسکتے ہیں۔ لے دے کر بس ایک ہمّت ہی باقی بچی تھی جس نے ہمیشہ کی طرح میرے ہر آڑے وقت میں میرا ساتھ دیا تھا۔
یہاں جسارت کے ہی میدان میں وہ صحافتی سومنات بھی ڈھاتا چلوں تو بہتر ہے۔ دیکھیں وہ جو ہم نے احمد سعید قریشی کے ذکر خیر میں 'تم لکھا کرو، ہفتہ وار کالم تو کالج کے زمانے سے لکھتے بھی رہے ہو' والی بات کہی تھی نا اور اس پر سے پردہ اٹھانے کا وعدہ کیا تھا نا اس کی حقیقت کچھ یوں تھی کہ 'چُٹکیاں' نامی طنز ومزاح کا ایک تقریباً ہفتہ وار کالم ہمارے نام سے چھپتا تھا، لیکن وہ ہم نہیں لکھتے تھے بلکہ ہمارے ایک استاد محترم لکھا کرتے تھے۔ ہاں البتہ ہفتے بھر کی ایسی چٹ پٹی خبریں جن کی 'ایک لائن میں چُٹکی' لی جاسکتی تھی وہ خبریں ہم بھی یکجا کرتے اور 'ٹرینڈ' اور حالات حاضرہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے، لال بال پوانٹ سے تبصرہ لکھ کر استاد محترم کو دیتے رہتے اور یوں 'کالم چُٹکیاں' تیار ہوتا تھا۔
پڑھیے: صحافی کون؟
لیکن مندرجہ بالا مشترکہ صحافتی کاوش کا احمد سعید قریشی کو بھی علم نہیں تھا، نہ ہی یہ راز خود ہم نے انہیں بتایا کہ جب تک خاموشی سے کام چلتا ہے چلاؤ۔
ذوالفقار علی بھٹو اور سینسرشپ والا زمانہ تھا، خبروں اور کالموں کی جگہ پر خالی جگہیں چھپنے لگی تھیں جس سے لوگوں کو پتا چل جاتا تھا کہ آج کیا کیا ایڈٹ ہوا ہے۔ پھر وہ دور بھی آیا جب اخبار کا بیشتر حصہ خالی یا بلینک چھپنے لگا 'چُٹکیاں' بھی بے دریغ کٹیں اور پھر وہ دن بھی آیا جب جسارت بند اور اسی کے ساتھ ساتھ ساتھ ہمارا کالم بھی بند! ایک دھیلا تک نہ ملا اور نہ ہی شاید 'گھوسٹ رائٹر' ہمارے استاد محترم کو ملا ہو، اگر ملا ہوتا تو وہ کچھ نہ کچھ تو چپکے سے بتا دیتے۔
ہار ماننے والے تو ہم بھی نہ تھے اور پھر ہماری ہمّت اپنی مضبوط بیساکھیوں کے ساتھ ہمیں 'جنگ اخبار' لے گئی۔ وہاں جاکر اپنے معاشی حالات جنگ اخبار کی بلند و بالا بلڈنگ کی طرح بظاہر اوپر جاتے لگے لیکن بباطن ہاتھ کچھ نہ لگاـ
جنگ اخبار کے دگّجوں میں سے ظہور الحسن بھوپالی، عارف اسحٰق، عارف الحق عارف، ایڈیٹر محمود احمد مدنی، ہمایوں عزیز، ناصر بیگ چغتائی، شفاعت بیگ وغیرہ سے روبرو ملاقاتیں، خوش گپیاں وغیرہ اور تبصرے اور تجزیے میں بسااوقات، کوئی بھی بات خواہ مخواہ تُو تُو، میں میں تک پہنچ جاتی تھی، کہنے کا مطلب یہ کہ 'مرئی اور غیر مرئی صحافت' اور جُزوقتی فاقہ مستی ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
جنگ کا اختتام ہفتہ والے اخبار میں بھی فدوی کے، اندر کے دونوں صفحات پر ریسرچ آرٹیکل چھپتے تھے۔ یہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور لبنان کی جنگ کا زمانہ تھا جس کا گڑھ بیروت تھا، جہاں 'میرونائڈس اور دروز' میں ٹھنی ہوئی تھی۔ اس جنگ کے حقائق، پس منظر اور امریکا اور ایران سمیت کون پیسے دے رہا تھا اور اسلحہ سمیت کس کی اور کیسی مدد کر رہا اور 'فلانجسٹس' کیسے پانسہ پلٹ رہے ہیں، شیعہ سنّی کا رول کیا کردار ادا کر رہا تھا وغیرہ جیسے انتہائی سنجیدہ اور گمبھیر موضوعات اس میں شامل ہوتے تھے اور ہفتہ بھر بعد جب یہ چھپتا تو بڑی پذیرائی تو ہوتی لیکن کوئی کمائی نہ ہوتی۔ جنگ کے بڑوں کے اس استدلال کے ساتھ کہ 'جنگ میں چَھپ جانا، بزعم خود کمائی سے بڑھ کر ہے اور اس شہرت کا کوئی مول نہیں‘۔
پڑھیے: صحافت سے دم توڑتی مزاحمت دیکھ کر ڈر لگتا ہے
مگر ایسی 'شاباش' خالی خولی تھی اور ہمارے کسی کام کی نہ تھی۔
لیکن خوش ہم بھی ہو لیتے تھے کہ چلو ہم اس اخبار میں چھپ رہے ہیں کہ جس میں ایسے گمبھیر بین الاقوامی موضوعات پر زیڈ اے سُلہری، قومی اور سرکاری معاملات پر جمیل الدین عالی جیسے پائے کے صحافی لکھتے ہیں، قطعے رئیس امروہی تو دوہے شفیع عقیل کے چھپتے ہیں اور نپا تُلا ہوش ربا اداریہ بھی سید محمد تقی اور محمو احمد مدنی جیسے معروف صحافیوں کے مرہون منت ہوتا ہے۔
مگر جامعہ کراچی میں انٹرنیشنل لا کے میرے پروفیسر شمیم اختر کے تمام لیکچرز کے نچوڑ اور جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری میں عفت سلطانہ اور تحسین رضا (آرٹیکل لکھنے میں، کتابوں سے نوٹس کی زیروکس کاپی کرنے میں معاونین) کے ساتھ بیٹھ کر 'ریفرنس اور حوالے والے' اضافی مطالعے نے بھی کچھ خاص کما کے نہ دیا۔
آج یہیں تک، آئندہ قسط میں بات اخبارِ جنگ کے ستونوں میں سے ایک یوسف صدیقی کے سامنے صحافتی زانوے تلمذ طے کرنے اور جنگ کے مالک میر خلیل الرحمٰن سے 'صحافتی گُر' سیکھنے سے شروع کروں گا۔
تبصرے (2) بند ہیں