شہباز شریف روانگی کا معاملہ: 'حیرت ہے ہائیکورٹ نے فریقین کو سنے بغیر فیصلہ کیسے دے دیا'
سپریم کورٹ نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے بیرون ملک جانے اور نام بلیک لسٹ سے نکالنے کے خلاف وفاقی حکومت کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ سے مقدمے کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے شہباز شریف سمیت فریقین کو نوٹس جاری کردیے جبکہ قومی احتساب بیور (نیب) کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف کے خلاف وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا مسئلہ کسی کے بیرون ملک جانے کا نہیں عدالتی طریقہ کار کا ہے، جس رفتار سے عدالت لگی اور حکم پر عملدرآمد کا کہا گیا وہ قابل تشویش ہے۔
مزید پڑھیں: شہباز شریف نے اپنا نام بلیک لسٹ سے نکلوانے کیلئے عدالت سے رجوع کرلیا
انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ میں جمعۃ الوداع کے روز اعتراضات لگے اور اسی دن دور بھی ہوئے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ شہباز شریف نے ہائی کورٹ سے درخواست واپس لے لی ہے اور درخواست واپس ہونے پر وفاق کی اپیل کیسے سنی جا سکتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست واپس لینے کے حکم میں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ واپس نہیں لیا گیا اور شہباز شریف کی توہین عدالت کی درخواست زیر التوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف کی ضمانت طبی بنیاد پر نہیں ہوئی۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ضمانت کے دوران بیرون ملک جانے پر پابندی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت درخواست کے ذریعے بیرون ملک روانگی کے فیصلے پر عمل کرایا جاسکتا اور اگر کوئی قانونی پابندی نہ ہو تو جیل سے سیدھا ایئرپورٹ جایا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف کا ضمانت کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع
انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر انہوں نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ توہین عدالت سے متعلق عدالت نے کیا کہا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس معاملے پر عدالت خاموش رہی۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے دوبارہ استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف کے بیرون ملک جانے کا سوال اب ختم ہوچکا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ شہباز شریف کی جانب سے درخواست دائر ہوتے ہی سماعت کے لیے مقرر ہوگئی جبکہ ہائی کورٹ نے فریقین کو نوٹس جاری کیے بغیر فیصلہ دے دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 7مئی جمعۃ الوداع کے دن ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا۔
جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ درخواست بھی 7مئی کو ہی دائر ہوئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دے کہ حیرت ہے کہ ہائی کورٹ نے فریقین کو سنے بغیر فیصلہ کیسے دے دیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ اس کے بیرون ملک جانے کا نہیں بلکہ ہائی کورٹ کے فیصلے کا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف کے بقول ان کا نام بلیک لسٹ میں تھا، وفاق کا موقف سنا جاتا تو آگاہ کر دیتے کہ نام بلیک لسٹ میں نہیں ہے بلکہ ای سی ایل میں ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریماکس دیے کہ اتنی جلدی میں سارا کام کیسے ہو سکتا ہے؟ جبکہ انتہائی ارجنٹ درخواست پر چیف جسٹس کی باقاعدہ تحریر ہوتی ہے۔
عدالت نے رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ سے ریکارڈ طلب کرتے ہوئے شہباز شریف سمیت فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔
علاوہ ازیں عدالت نے نیب کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا مسترد کر تے ہوئے سماعت آئندہ بدھ تک ملتوی کردی۔