ڈینگی کے مریضوں میں کووڈ کی علامات کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، تحقیق
ماضی میں ڈینگی کا سامنا کرنے والے افراد میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے پر کووڈ کی علامات ابھرنے کا امکان دگنا زیادہ ہوتا ہے۔
یہ بات برازیل میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
یونیورسٹی آف ساؤ پاؤلو بائیومیڈیکل سائنس انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں برازیل کے ایمیزون خطے کے ایک قصبے کے 1285 افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ ڈینگی کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں ان میں کووڈ 19 سے سنگین حد تک بیمار ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق ایک طرف کووڈ 19 کے نتیجے میں ڈینگی کی روک تھام کے اقدامات متاثر ہوئے ہیں، وہی دوسری جانب ڈینگی سے کووڈ کا شکار ہونے کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔
یہ تحقیقی ٹیم عرصے سے اس خطے میں ملیریا کی روک تھام کے لیے کام کررہی ہے اور 2018 میں انہوں نے ہر ماہ بعد قصبے کی آبادی کے سروے کا پراجیکٹ شروع کیا تھا۔
تاہم کورونا وائرس کی وبا کے بعد اس کا رخ کووڈ کی جانب موڑ دیا گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ستمبر 2020 میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ایسے علاقے جہاں ڈینگی کے کیسز بہت زیادہ رپورٹ ہوچکے ہیں وہاں کووڈ 19 سے زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ چونکہ ہم اس خطے کے رہائشیوں کے خون کے نمونے کورونا وائرس کی وبا کی پہلی لہر سے پہلے اور بعد میں اکٹھے کرچکے تھے، تو ہم نے ان کو اس خیال کی جانچ پڑتال کے لیے آزمانے کا فیصلہ کیا کہ ماضی میں ڈینگی وائرس کا سامنا کرنے والے افراد کو کسی حد تک کووڈ سے تحفظ حاصل ہوتا ہے، مگر نتائج اس سے بالکل متضاد رہے۔
تحقیق میں جن خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا وہ نومبر 2019 اور نومبر 2020 میں اکٹھے کیے گئے تھے اور ان میں موجود اینٹی باڈیز کو ڈینگی تمام اقسام اور کورونا وائرس کے خلاف آزمایا گیا۔
نتائج سے ثابت ہوا کہ 37 فیصد افراد نومبر 2019 سے قبل ڈینگی جبکہ 35 فیصد افراد نومبر 2020 سے قبل کورونا سے متاثر ہوچکے تھے۔
محققین کے مطابق ہم نے شماریاتی تجزیے سے نتیجہ نکالا کہ ماضی میں ڈینگی وائرس سے متاثر ہونے سے کووڈ سے بیمار ہونے کا خطرہ کم نہیں ہوتا۔
ان کہنا تھا کہ درحقیقت تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو ڈینگی کا سامنا ہوچکا ہے، ان میں کورونا سے متاثر ہونے پر علامات ابھرنے کا امکان دیگر سے زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق میں اس کی وجوہات کو واضح نہیں کیا گیا تاہم محققین کے خیال میں اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں جیسے ڈینگی وائرس کے خلاف کام کرنے والی اینٹی باڈیز کورونا وائرس کے مقابلے میں بہت یادہ متحرک ہوجاتی ہوں۔
محققین نے بتایا کہ نتائج سے سماجی دوری کی اہمیت کا عندیہ ملتا ہے کہ تاکہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے اور اس کے ساتھ ساتھ ڈینگی کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل کلینیکل انفیکشیز ڈیزیز میں شائع ہوئے۔