بی بی سی نے اسحٰق ڈار کے انٹرویو میں انتخابات سے متعلق غلطی تسلیم کر لی
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) نے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار سے کیے گئے انٹرویو میں پروگرام کے میزبان کی جانب سے 2018 کے انتخابات کے بارے میں یورپی یونین کی رپورٹ کا غلط حوالہ دینے کی غلطی تسلیم کر لی۔
گزشتہ سال دسمبر میں بی بی سی کے پروگرام 'ہارڈ ٹاک' میں میزبان اسٹیفن سکر نے سابق وزیر خزانہ اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما اسحٰق ڈار کا انٹرویو کیا تھا۔
مزید پڑھیں: فوج بطور ادارہ نہیں، کچھ لوگ جمہوریت کو کمزور کر رہے ہیں، اسحٰق ڈار
اس انٹرویو میں اسحٰق ڈار سے ان کی جائیداد کے حوالے سے سخت سوالات کیے گئے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ 2018 کے انتخابات کے حوالے سے بھی گفتگو کی گئی تھی۔
انٹرویو کے دوران اسحٰق ڈار نے الزام عائد کیا تھا کہ 2018 کے انتخابات چوری کیے گئے اور اس کے نتائج میں ردوبدل کی گئی تھی لیکن پروگرام کے میزبان نے ان کی بات کی نفی کرتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابات 'معتبر' تھے اور ایسا یورپی یونین کی رپورٹ میں کہا گیا تھا۔
انٹرویو کے بعد اسحق ڈار نے بی بی سی کے حکام سے شکایت کی تھی کہ یورپی یونین کی 2018 کے عام انتخابات کے حوالے سے 91 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں 'معتبر' کا لفظ ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں کیا گیا۔
اسحٰق ڈار نے بی بی سی سے انٹرویو کے دو ہفتے بعد شکایت کرتے ہوئے اعلیٰ حکام سے کہا تھا کہ یہ انٹرویو جانبدارانہ تھا اور انٹرویو کرنے والی ٹیم نے حقائق کے حوالے سے درست انداز میں تحقیق نہیں کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا اسحٰق ڈار کے انٹرویو پر دلچسپ تبصرہ
بی بی سی نے اب اپنی اس غلطی کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے اور انہوں نے کہا کہ یہ بات یورپی یونین کے عہدیدار نے اپنی رپورٹ میں نہیں بلکہ میڈیا سے گفتگو میں کہی تھی۔
بی بی سی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہم یہ بات واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم نے ان تبصروں کا حوالہ دیا تھا جو یورپی یونین مانیٹرز کے چیف آبزرور مائیکل گیہلر نے جولائی 2018 کے عام انتخابات کے اجرا کے موقع پر پریس کانفرنس کے ابتدائیے میں ادا کیے تھے اور ایسا رپورٹ میں نہیں تھا۔
مائیکل گیہلر نے اس پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ مجموعی طور پر انتخابات 'معتبر' تھے تاہم اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے انتخابات کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔
یورپی یونین کے عہدیدار نے مزید کہا تھا کہ انتخابی عمل کے بارے میں ہمارا مجموعی تجزیہ یہ ہے کہ یہ الیکشن 2013 جتنے اچھے نہیں تھے، بڑی سیاسی ساکھ اور مالی وسائل رکھنے والے امیدوار جو ’الیکٹ ایبلز‘ کے نام سے مشہور ہیں، ان کی اکثریت کا انتخابی مہم پر غلبہ رہا، انتخابی مہم کے اخراجات سے متعلق قوانین درست نہیں تھے جس کی وجہ سے امیدواروں کو یکساں مواقع میسر نہ آ سکے۔
بی بی سی نے اپنی وضاحت میں مزید کہا کہ یورپی یونین مانیٹرز کی جانب سے اکتوبر 2018 میں شائع حتمی رپورٹ میں ان تمام 446 پولنگ اسٹیشنز میں ووٹنگ کو شفاف قرار دیا گیا جہاں یورپی یونین نے نگرانی کی لیکن ووٹوں کی گنتی، منتقلی اور ٹیبولیشن میں شفافیت کی کمی تھی جس کی وجہ سے انتخابی دھاندلی کے الزامات کو بنیاد فراہم کرتے ہیں، اس رپورٹ میں پاکستان میں مستقبل کے انتخابات کے حوالے سے متعدد تجاویز بھی پیش کی گئی تھیں۔
مزید پڑھیں: شان نے اسحٰق ڈار اور ان جیسے لوگوں کو پاکستان کی بدنامی کا سبب قرار دے دیا
اس انٹرویو کے بعد حکمران جماعت کے پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں نے مسلم لیگ(ن) بالخصوص اسحٰق ڈار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ کچھ حلقوں نے حکومت کی فتح بھی قرار دیا تھا اور سوشل میڈیا پر انٹرویو کی مختلف کلپس جاری کی گئی تھیں۔
جہاں ایک طرف تحریک انصاف کے حامیوں نے پروگرام کے میزبان اسٹیفن سکر کو داد و تحسین سے نوازا، وہیں مسلم لیگ(ن) کے سپورٹرز نے انٹرویو اور اس کے متن پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔