کووڈ کے نوجوان مریضوں میں صحتیابی کے بعد طویل المعیاد علامات کا خطرہ
کووڈ کا سامنا کرنے والے نوجوان مریضوں کو صحتیابی کے بعد طویل المعیاد علامات یا لانگ کووڈ کا سامنا ہوسکتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
جونز ہوپکنز میڈیسین کی اس تحقیق میں 3 کیسز کے تجزیے میں اولین شواہد فراہم کیے گئے کہ کووڈ سے متاثر نوجوانوں کو صحتیابی کے بعد مختلف علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
طبی جریدے فرنٹیئرز ان میڈیسین میں تحقیق میں بتایا گیا کہ تینوں مریضوں میں وبا کے آغاز میں بیماری کی تصدیق ہوئی تھی اور بعد ازان ان میں شدید تھکاوٹ کا باعث بننے والے سینڈروم کی علامات کو دیکھا گیا۔
تحقیق کے مطابق بیماری کے 6 ماہ بعد بھی ان نوجوانوں کو شدید تھکاوٹ کا باعث بننے والے سینڈروم کا سامنا تھا۔
تحقیق میں شامل افراد میں ایک مرد اور 2 خواتین شامل تھیں جن کی عمریں 22 سے 30 سال کے درمیان تھیں۔
یہ تینوں اپریل سے جون 2020 کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے اور اسی سال اگست سے اکتوبر کے دوران انہیں تھکاوٹ کا علاج کرنے والے مراکز سے رجوع کرنے کا کہا گیا تھا۔
ان تینوں کو تھکاوٹ، سر چکرانے اور توجہ مرکوز نہ کرپانے جیسی علامات کا سامنا تھا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ان تینوں میں کووڈ 19 کی علامات معمولی تھیں اور انہیں ہسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا تھا، مگر انہیں زیادہ سنگین طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ نتائج زیادہ عمر کے کووڈ 19 کے مریضوں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس سے مطابقت رکھتے ہیں جن میں ہر وقت تھکاوٹ صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی برقرار تھی، چاہے بیماری کی شدت جو بھی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ اس حیاتیاتی میکنزم کا تعین کیا جاسکے جو طویل المعیاد علامات کا باعث بنتا ہے اور اس معلومات کو علاج کی حکمت عملیوں کو مرتب کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔