افغانستان: جنگ بندی کیلئے جو کام عالمی طاقتیں نہ کرسکیں قبائلی عمائدین نے کر دکھایا
مشرقی افغانستان میں قبائلی عمائدین نے وہ کام کر دکھایا جو طویل عرصے سے عالمی لیڈرز کرنے میں ناکام رہے تھے اور انہوں نے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مقامی سطح پر جنگ بندی کرادی۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جنگ سے بری طرح متاثر ہونے والے صوبے میں ضلع لغمان کے علاقے علی نگر میں مہینوں سے جاری امن کے باعث مقامی کسانوں کو اپنی فصلیں کاشت کرنے اور طلبہ کو امتحانات میں بیٹھنے کا موقع مل گیا۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں پاکستان کے اہم کردار سے متعلق امریکی کانگریس میں بازگشت
علی نگر کے شہری جابر الکوزئی کا کہنا تھا کہ 'جنگ بندی قیمتی ہے جس کے افغانستان میں قیام کے لیے دنیا کے طاقت ور ممالک کوشش کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں کرسکے'۔
قبائلی عمائدین نے مطالبات پر مشتمل ایک خط تیار کیا تھا، جس کو مقامی زبان میں 'عریضہ' کہا جاتا ہے، جس پر طالبان اور حکومت دونوں کے دو مقامی عہدداروں نے دستخط کیے تھے۔
رپورٹ کے مطابق علی نگر میں جنگ بندی کے آغاز سے اب تک جھڑپوں کی کوئی رپورٹ نہیں ہے جبکہ لغمان کے دیگر علاقوں میں شدید کشیدگی جاری ہے۔
دونوں فریقین کے درمیان ہونے والی جنگ بندی 21 جون کو ختم ہوجائے گی لیکن جنگ کے دوران اس طرح کا معاہدہ کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم ایک اہم وقت میں یہ پیش رفت ہوئی ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے باقاعدہ اعلان کے بعد حکومتی فورسز اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا۔
امریکا کی سربراہی میں مغربی ممالک اور دیگر با اثر خطے کے ممالک تاحال طالبان جو افغان فورسز کے خلاف کارروائیاں روکنے کے لیے آمادہ کرنے میں ناکام رہے حالانکہ کوششیں اور مذاکرات بھی ہوئے۔
علی نگر کے قبائلی رہنما قاری نبی سرور کا کہنا تھا کہ کسانوں کو مسلسل جنگ کے باعث ایک اور سال گندم کی کاشت کے حوالے سے نقصان کا حامل ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان، افغانستان کیلئے سب سے اہم ہمسایہ ملک ہے، امریکی رپورٹ
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برسوں میں گندم کے ذخیروں کو جلایا گیا تھا جو بارود اور راکٹ لانچرز سمیت دیگر ہتھیاروں کے ساتھ ہونے والے مسلح تصادم کا نتیجہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ کسان اپنی محنت کا پھل لینے کی تیاری کرتے ہیں جبکہ طالبان اور افغان فورسز کی انگلیاں ٹیگرز پر ہوتی ہیں اور ایک دوسرے پر فائرنگ کی وجہ بھی معمولی ہوتی ہے۔
افغانستان میں کسان 22 مئی کو گندم کی کاشت شروع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جو افغانستان شمسی سال کے تیسرے ماہ جاؤزا کا پہلا دن ہے اور روایتی طور پر ملک بھر میں کاشت شروع ہوجاتی ہے۔
دونوں فریقین سے رابطے کرنے والے وفد کے رکن حاجی عبد الوارث کا کہنا تھا کہ جنگ بندی سے ان طلبہ کا نقصان بھی نہیں ہوگا جن کے امتحانات ملتوی ہورہے تھے۔
قبائلی رہنما الوکزئی کا کہنا تھا کہ مقامی لوگ اس پیش رفت سے خوش ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ پورے افغانستان میں امن کے حصول کے لیے مثال بن جائے گی کہ حقیقی اور دیانت دار قبائلی عمائدین کے ذریعے افغانستان بھر میں جنگ بندی ممکن ہوسکتی ہے۔
لغمان کے گورنر کے ترجمان اسداللہ دولتزئی نے بتایا کہ حکومت جنگ بندی مزید علاقوں تک بڑھانے کے لیے مقامی قبائلی عمائدین اور اسکالرز کے ساتھ کام کر رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے ذریعے مقامی حکومت مستقل جنگ بندی تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے، یہ گاؤں ، ضلع یا صوبائی سطح پر ہی کیوں نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا اس کا اطلاق لغمان کے دارالحکومت مہترلام پر بھی ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا پاکستان، دیگر ہمسایہ ممالک کیلئے ایک امتحان
دوسری جانب طالبان کے ترجمان نے کوئی ردعمل نہیں دیا لیکن طالبان ذرائع نے بتایا کہ وہ اس معاہدے سے اتفاق کر چکے ہیں، جس کو وہ حکومت کے بجائے مقامی عمائدین سے معاہدہ قرار دے رہے ہیں۔
ایک صفحے پر مشتمل ڈیمانڈ لیٹر میں مقامی حکومت، فوج اور طالبان نے دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا کہ دونوں فریقین اپنے زیر قبضہ علاقوں تک محدود رہیں گے اور جنگ بندی کے دوران کوئی آپریشن نہیں ہوگا۔
معاہدے میں کہا گیا کہ دونوں فریقین قبائل کے مسائل پر توجہ دیں گے اور ان کے حل کے لیے مدد کریں گے، جو فریق اس کی خلاف ورزی کرے گا تو قبائل کے سامنے قصور وار ہوگی۔
تبصرے (2) بند ہیں