افغانستان میں پاکستان کے اہم کردار سے متعلق امریکی کانگریس میں بازگشت
افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ پاکستان کرے گا کیوں کہ تقریباً 20 سال کی بلا رکاوٹ فوجی موجودگی کے بعد امریکا کا ملک میں بہت معمولی کردار رہ گیا ہے۔
افغان صدر اشرف غنی کا یہ دعویٰ رواں ہفتے امریکی کانگریس میں گونجتا رہا جہاں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے قانون سازوں نے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا اور اس اہم کردار پر غور کیا گیا جو پاکستان کو اس حوالے سے ادا کرنا ہے۔
جو بائیڈن حکومت کا تقریباً 20 سال بعد رواں برس 11 ستمبر تک افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کا ارادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان، افغانستان کیلئے سب سے اہم ہمسایہ ملک ہے، امریکی رپورٹ
جرمن ادارے کو ایک انٹرویو میں افغان صدر نے کہا تھا کہ پاکستان کو آن بورڈ لینے کا اولین اور اہم معاملہ افغانستان میں امن قائم کرنا تھا اور فوجوں کے انخلا سے ملک میں امریکا کے اثر و رسوخ میں بڑی کمی آئے گی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'اب امریکا بہت معمولی کردار ادا کرے گا اور امن یا دشمنی کا سوال پاکستانی ہاتھوں میں ہے'۔
یہ انتباہی پیغام امریکی ایوان کی کمیٹی برائے امور خارجہ میں اس وقت دہرایا گیا جب رکن کانگریس سارا جیکب نے 'انخلا کے بعد امریکا-افغانستان تعلقات' پر سماعت کے دوران اشرف غنی کا بیان پڑھا۔
جس پر انہوں نے امریکا کے افغان امور کے مذاکراتی سربراہ زلمے خلیل زاد سے آگے کے راستے کے بارے میں پوچھا۔
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت دونوں اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ افغانستان میں امن کے معاشی فوائد ہیں۔
امریکی نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ 'آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعظم عمران خان دونوں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جہاں مستقبل ہے وہیں معاشی فوائد ہیں، آرمی چیف نے کہا کہ ملک ترقی نہیں کرتے خطے ترقی کرتے ہیں'۔
مزید پڑھیں:افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا پاکستان، دیگر ہمسایہ ممالک کیلئے ایک امتحان
زلمے خلیل زاد نے مزید کہا کہ 'اور مجھے علم ہے کہ پاکستان میں چیلنجز ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ آرمی چیف کا گزشتہ دورہ کابل مثبت تھا، انہوں نے ان اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جو دونوں فریقین اٹھائیں گے برطانیہ کے ساتھ مل کر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں میں تعاون کررہے ہیں۔
انہوں نے پاک افغان تعلقات کو افغانستان کی حالیہ تاریخ کا نازک موڑ قرار دیا جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے اور حالیہ پیش رفتوں کے تناظر میں ہم پُر امید ہیں۔
امریکی نمائندہ خصوصی نے اشرف غنی کا بیان علاقائی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اشرف غنی اس لحاظ سے ٹھیک ہیں کہ افغانستان میں دیرپا استحکام لانے کے امن معاہدے کے لیے یہ خطہ اہم ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا علاقائی اتفاق رائے اور امن کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوششیں کررہا ہے اس لیے انہوں نے بار بار امن کی معاشی جہتوں کی اہمیت پر زور دیا۔
زلمے خلیل زاد نے یہ بھی کہا کہ 'کسی کو افغانوں کو ان کی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ نہیں کرنا چاہیے، انہیں لازماً ایک دوسرے کو قبول کرنا چاہیے اور ایسا فارمولا تلاش کرنا چاہیے جو ان کے اختلافات دور کرے'۔
پاکستان اتنا اہم ہے تو اس کے مطابق سلوک کیوں نہیں ہوا؟ رکن کانگریس
رکن کانگریس ٹیڈ لی نے سوال کیا کہ اگر امن عمل کی کامیابی کے لیے پاکستان اتنا اہم تھا تو اس کے ساتھ اس کے مطابق سلوک کیوں نہیں ہوا؟
انہوں نے کہا کہ مجھے تجسس ہے کہ رواں برس کے اوائل میں کیا ہوا تھا جب بھارت اور بنگلہ دیش سمیت 40 عالمی رہنماؤں کو ماحولیات سے متعلق اجلاس میں مدعو کیا گیا اور پاکستانی رہنما کو مدعو نہیں تھا حالانکہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا دنیا کا 5واں ملک ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان، افغانستان کا سرپرست نہیں دوست بننا چاہتا ہے، وزیر خارجہ
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بہت بے عزتی کی بات محسوس ہوتی ہے کہ ماحولیاتی اجلاس میں پاکستانی رہنما کو مدعو نہیں کیا گیا جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش کے رہنما کو دعوت دی گئی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اور اب ہم پاکستان سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں افغانستان میں بہت مدد کرو اس لیے میں حیران ہوں کہ پاکستانی رہنما کو خارج کرنے کے پسِ پردہ کیا وجہ تھی۔
جس پر زلمے خلیل زاد نے کہا کہ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ایک اہم ملک ہے، ہمارا پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کا دور رہا ہے اور پاکستان کا افغانستان میں اہم کردار ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'جہاں تک بات ماحولیاتی اجلاس کی ہے تو میں اس کا جواب نہیں دے سکتا کہ کیا فیصلہ ہوا لیکن پاکستان کی نمائندگی ہوئی تھی۔