بائیڈن کو غزہ میں اسرائیلی اشتعال انگیزی میں کمی کی امید
امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ میں جاری تنازع کے خاتمے اور سیز فائر کی کوششوں کے طور پر اسرائیلی وزیر اعظم سے کہا ہے کہ وہ اشتعال انگیزی میں نمایاں کمی کی توقع رکھتے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق غزہ میں 10 مئی سے جاری بدترین بمباری کا سلسلہ بدھ کو بھی جاری رہا جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 219 فلسطینی جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں جبکہ اسرائیلی پولیس کے مطابق اس دوران اسرائیل میں بھی 12 افراد مارے گئے۔
مزید پڑھیں: غزہ پر اسرائیلی جارحیت روکنے کی کوششیں تاحال ناکام، تازہ حملوں میں 6 افراد جاں بحق
وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق ایک ہفتے کے دوران چوتھی فون کال کے دوران بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے کہا کہ وہ ان سے اشتعال انگیزی میں نمایاں کمی کی توقع رکھتے ہیں تاکہ سیز فائر کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔
اس خونریزی کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر سفارتی کوششیں تیز کردی گئی ہیں اور جرمنی نے کہا کہ اس کے اعلیٰ سفارت کار جمعرات کے روز اسرائیل سے مذاکرات کے لیے جارہے ہیں۔
نیتن یاہو نے بدھ کے روز غزہ کی پٹی کی حکمران جماعت حماس سے سخت خطرے کا انتباہ جاری کیا تھا اور ان کا کہنا ہے کہ 10 مئی سے اب تک حماس اسرائیل پر 3ہزار 700 راکٹ داغ چکی ہے۔
انہوں نے غیر ملکی سفیروں کو بتایا کہ یا تو آپ ان پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں اور یہ امکان ہمیشہ کے لیے کھلا ہے یا آپ ان کو روک سکتے ہیں اور ہم ابھی بھرپور طاقت سے انہیں روک رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فوجیوں کی سی این این کے صحافی سے بدسلوکی، رپورٹنگ سے روکنے کی کوشش
ان کا کہنا تھا کہ لیکن میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہم کسی بھی امکان کو رد نہیں کررہے۔
لیکن ایک اسرائیلی فوجی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اس بات کا اندازہ لگا رہا ہے کہ وہ کس مرحلے پر اپنی فوجی مہم روک سکتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جنگ بندی کا صحیح وقت کب ہے۔
فوجی ذرائع نے بتایا کہ اسرائیل اس بات کا جائزہ لے رہا تھا کہ آیا حماس کی صلاحیتوں کو نیچا دکھانے کا اس کا مقصد حاصل ہو گیا ہے اور کیا حماس اس پیغام کو سمجھتا ہے کہ اسرائیل کی طرف ان کی جانب سے جو راکٹ داغے جا رہے ہیں ایسا دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔
صبح کے اوقات میں ہی جنگی طیاروں نے غزہ شہر کو ایک بار پھر نشانہ بنایا جہاں اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے حماس کے ساتھ ساتھ عوامی مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔
غزہ میں رہنے والی 7 بچوں کی 45 سالہ والدہ رندا ابو سلطان نے بتایا کہ کس طرح ان کے اہل خانہ خوف کے سائے میں ایک ہی کمرے میں رات گزارنے پر مجبور ہیں۔
مزید پڑھیں: اسرائیلی فورسز کا غزہ میں قطری ہلال احمر کے دفتر پر حملہ
انہوں نے کہا کہ ہم سب دھماکوں، میزائلوں اور لڑاکا طیاروں کی آواز سے خوفزدہ ہیں، میرا چار سالہ بیٹا مجھ سے کہتا ہے کہ اسے ڈر ہے کہ اگر وہ سو گیا تو وہ اٹھ کر ہمیں مردہ پائے گا۔
سفارتی ہنگامہ آرائی
اسرائیل کا ایک اہم حلیف امریکا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مشترکہ بیان کی راہ میں رکاوٹ اور مسلسل اسے ویٹو کرتا رہا ہے جہاں اس بیان میں اسرائیل سے تشدد کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
منگل کو رات گئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس کوئی بیان جاری کیے بغیر ہی ختم ہو گیا لیکن فرانس نے کہا تھا کہ اس نے مصر اور اردن کے ساتھ مل کر جنگ بندی کی ایک تجویز پیش کی تھی۔
اقوام متحدہ میں چین کے سفیر جانگ جون نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کی ٹیم نے فرانسیسی جنگ بندی کی تجویز کو سنا ہے اور چین اس کا حامی ہے۔
لیکن امریکا نے بدھ کے روز کہا کہ وہ اس مجوزہ قرار داد کی حمایت نہیں کرے گا کیونکہ اس سے اس بحران کو دور کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ پر اسرائیلی بمباری، امریکی صدر نے پہلی مرتبہ سیز فائر کی حمایت کردی
اقوام متحدہ میں ایک امریکی ترجمان نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ہمارا واضح اور مستقل مؤقف ہے کہ ہماری توجہ تشدد کے خاتمے کے لیے جاری سفارتی کوششوں پر مرکوز ہے اور ہم ان اقوام متحدہ کے ان اقدامات کی حمایت نہیں کریں گے کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ اس سے تشدد میں کمی کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔
جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس جمعرات کو اسرائیل کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع سے ملاقات کریں گے اور فلسطینی وزیر اعظم سے بات چیت کے لیے رام اللہ کا دورہ کریں گے۔
بدترین انسانی بحران
وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں کم از کم 219 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس میں 63 بچے بھی شامل ہیں اور اب تک ایک ہزار 530 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
ادھر اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ 10 مئی سے اب تک حماس نے اسرائیل پر 3 ہزار 700 راکٹ داغے ہیں جس کے نتیجے میں ایک ہندوستانی اور دو تھائی شہریوں سمیت 12 افراد ہلاک اور 333 زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ راتوں رات مسلح گروہوں نے جنوبی اسرائیل کی طرف 50 راکٹ فائر کیے جن میں سے 10 دم توڑ گئے اور غزہ کے اندر ہی گر گئے۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے رات میں جنوبی غزہ میں زیر زمین حماس کے 40 اہداف کو نشانہ بنایا۔
مزید پڑھیں: شدید سفارتی رد عمل بھی فلسطینیوں کو اسرائیلی حملوں سے بچانے میں ناکام
اسرائیل کی بمباری کے بعد نے غزہ کی 20 لاکھ آبادی عالمی امداد کی منتظر ہے کیونکہ ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تقریبا 72ہزار شہری اپنے گھروں سے نکل اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکولوں اور دیگر سرکاری عمارتوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔
تازہ جھڑپوں کا آغاز اس وقت ہوا جب مقبوضہ بیت المقدس میں واقع مسجد اقصیٰ میں انتہا پسند یہودیوں نے رمضان کے مہینے کے آخری عشرے میں مسلمانوں پر حملہ کر کے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔
اس کے بعد یروشلم کے ضلع شیخ جرہ میں فلسطینی خاندانوں کو گھروں سے جبری طور پر بے دخل کرنے کا واقعہ پیش آیا۔
فلسطین کے مرکز اطلاعات کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز ہیبرون کے قریب ایک فلسطینی خاتون کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جس کے بعد 10 مئی سے اب تک مغربی کنارے پر ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 25 ہو گئی ہے۔