’کراچی پہلے بارشوں کے لیے تیار تھا نہ اب ہے‘
کراچی اس سال بارشوں کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔ یہ پچھلے سال بھی بارشوں کے لیے تیار نہیں تھا اور اس سے پچھلے سال بھی۔
گزشتہ سال کی تباہ کن بارشوں سے کئی لوگوں کی جانیں گئیں اور لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔ تب سب سے زیادہ تباہ کن بارش اگست میں ہوئی جب 12 گھنٹوں کے دوران 200 ملی میٹر بارش برسی۔ بارش اور اس کے بعد پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال ایسی تھی کہ وہ خلا سے بھی نظر آرہی تھی اور ناسا کی ویب سائٹ پر بھی اس کی تصاویر موجود ہیں۔
بارش کا پانی کئی دنوں تک کھڑا رہا اور یہ کھڑا ہوا پانی کئی بیماریوں کا باعث بنا۔ ہزاروں کاروبار جو کورونا کی وجہ سے پہلے ہی مشکل میں تھے مزید متاثر ہوئے۔ ایک شخص نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’آپ کراچی کی سڑکوں کو دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہوجائیں گے۔ اس پانی کی وجہ سے آپ کسی طرح باہر نہیں نکل سکتے‘۔
اس مرتبہ بھی کراچی کے شہریوں کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔ اگرچہ طوفان کا خطرہ ٹل چکا ہے لیکن مون سون بارشوں نے تو برسنا ہے۔ گزشتہ اگست کی بارشوں کے بعد سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت (جس کے خزانے کراچی اپنے ٹیکسوں سے بھرتا ہے) سے مدد کی اپیل کی۔ جس پیمانے پر تباہی ہوئی تھی اس سے یہ بات واضح تھی کہ اس سے نمٹنا صوبائی حکومت کے بس کی بات نہیں تھی۔ تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے بھی کوئی خاطر خواہ مدد نہیں آئی۔ وزیرِ اعظم نے 1100 ارب روپے کا وعدہ کیا لیکن اس حوالے سے مزید کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔
مزید پڑھیے: وزیراعظم عمران خان کا کراچی کیلئے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان
سیلابی صورتحال کی ایک بڑی وجہ برساتی نالوں کی بندش بھی تھی۔ چونکہ پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں تھا اس وجہ سے پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوا۔ حال ہی میں وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ممکنہ بارشوں اور طوفان کے حوالے سے ایک میٹنگ کی صدارت کی۔ انہوں نے 80 ملی میٹر بارش کی پیش گوئی کے باعث نالوں کے چوکنگ پوائنٹ کو صاف کرنے اور صوبائی انتظامیہ کو تمام اضلاع کو ڈی واٹرنگ مشینیں فراہم کرنے کے احکامات دیے۔ سندھ سیکرٹیریٹ میں ایک خصوصی ’کنٹرول سیل‘ بھی تشکیل دیا گیا تاکہ مختلف ادارے مل کر متاثرین کی مدد کرسکیں۔
یہ ایک زبردست کوشش ہے اور مون سون کے حوالے سے بھی اسی قسم کی کوششوں کی ضرورت ہے، تاہم حالات کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ کراچی میں بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے ایک پورا نظام تشکیل دیا جائے اور اس سے متعلق دیگر انتظامات کو بھی درست کیا جائے۔
اس کے لیے نشیبی علاقوں کی میپنگ اور نکاسی کے نظام کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ شہر کے اہم راستوں کو ایک ہی طرز پر تیار کرنا ہوگا تاکہ بارش کا پانی نالوں میں ہی جائے۔ کسی مشکل صورتحال سے بچنے کے لیے انتظامیہ کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ نکاسی آب کے کسی بھی طرح کے زیرِ زمین نظام کے بغیر کوئی بھی شہر بڑی مقدار میں بارش کے پانی کا انتظام نہیں کرسکتا۔
یہ بات اب واضح ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اس خطے میں ہونے والی بارشوں کی صورتحال پر بھی فرق پڑا ہے۔ ماضی میں کراچی میں بارشیں ہوتی ہی نہیں تھیں، اگر کسی سال بارش ہوتی بھی تو گزشتہ سال ہونے والی بارشوں کی طرح تو بالکل نہیں ہوتی تھی۔ بحیرہ عرب کے پانی کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا مطلب ہے کہ یہاں اب پہلے سے زیادہ طوفان بنیں گے، جتنے زیادہ طوفان بنیں گے، کراچی کے متاثر ہونے کے امکانات بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ اگر کوئی شہر تیز بارشوں کو ہی برداشت نہ کرسکے تو اندازہ کیجیے کے کسی طوفان کا شکار ہونے پر وہاں کیا صورتحال ہوگی۔
2 کروڑ آبادی کے شہر کراچی کی حالت بہت ہی خستہ ہے۔ یہاں عدم مساوات کے مظاہر بھی نظر آتے ہیں۔ غریبوں کے محلے امیروں کی بستیوں کے درمیان دبے ہوئے ہیں۔ وہ بستیاں جن کی بلند دیواروں کے پیچھے امیروں نے خود کو اور اپنی دولت کو چھپایا ہوا ہے۔ امیروں کے پاس تو بیک اپ جنریٹر موجود ہیں جن کی وجہ سے انہیں بارشوں کے موسم کی گرمی برداشت نہیں کرنی پڑتی۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ کراچی میں رہے بغیر بھی کراچی میں رہ رہے ہوں۔
مزید پڑھیے: کراچی میں طوفانی بارشوں سے سیلابی صورتحال
یہ تو خیر امیروں کی کہانی ہے۔ کچی آبادیوں یا اونچی عمارتوں میں موجود چھوٹے فلیٹوں میں رہنے والی کراچی کی اکثر آبادی روز ہی اذیت کا سامنا کرتی ہے۔ شہری انتظامیہ نے ان لوگوں کو مسلسل مایوس کیا ہے۔ جب جب شہر میں پانی چڑھتا ہے تو ٹی وی چینل اسے ’موسم خوشگوار ہوگیا‘ کہہ کر لوگوں کو مزید اذیت دیتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر شخص اس موسم میں اپنے گھر کے ڈوبنے کی فکر چھوڑ کر پکوڑوں سے لطف اندوز ہو۔ گھر میں کچھ انچ پانی جمع ہونے سے کیا ہوجائے گا اگر آپ تب بھی اپنے صوفے پر بیٹھے پکوڑے کھا رہے ہوں؟ ایسا لگتا ہے کہ شہری انتظامیہ بھی شہر کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر یہی سوچتی ہے۔
کون کہتا ہے کہ دوزخ گرم اور خشک ہی ہونا چاہیے؟ کراچی یہ ثابت کرسکتا ہے کہ گیلی اور پانی سے بھری دوزخ بھی اتنی ہی اذیت ناک ہوسکتی ہے۔ جیسے جیسے مون سون قریب آرہا ہے کراچی کے شہریوں کو خود کو تیار کرلینا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ کھانے پینے کی اشیا ذخیرہ کرلیں۔ ٹارچوں کی بیٹریوں اور اپنے موبائل فون کو چارج رکھنے کا بندوبست بھی رکھیں کیونکہ تیز بارش کے نتیجے میں سب سے پہلے جو چیز منقطع ہوگی وہ بجلی ہوگی۔
بہتر یہی ہے کہ بجلی اور وائے فائے کی عدم موجودگی اور پانی سے لبریز گلیوں سے نمٹنے کے لیے پہلے سے حکمتِ عملی ترتیب دی جائے۔ بجلی نہ ہونے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ آپ ٹی وی اینکروں کو پکوڑوں کی ترکیبیں بتاتے اور موسم خوشگوار ہونے کا اعلان کرتے نہیں سنیں گے۔
کراچی والوں کو بارش سے بد دل ہونے کا حق پہنچتا بھی ہے۔ ماضی قریب میں ہر سال ہونے والی بارش شہر کو تباہ کرجاتی ہے۔ بیٹھے بٹھائے بنیادی زندگی گزارنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجاتا ہے۔ ہر سال ایک بے حس وفاقی حکومت لوگوں کو مشکلات میں گھرا دیکھتی رہتی ہے۔ یہ سال بھی کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ اسلام آباد اور کراچی کے درمیان بارش سے متعلق کوئی رومانس نہیں ہے۔ تباہ حال کراچی کو شاید وفاقی حکومت بس پکوڑوں کی ایک پلیٹ ہی پیش کرسکتی ہے۔
یہ مضمون 19 مئی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں