میانمار: فوجی بغاوت کیخلاف مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 800 سے زائد ہوگئی
میانمار میں رواں برس فروری میں ہونے والی فوجی بغاوت کے خلاف شدید احتجاج اور مظاہروں کی لہر کے دوران ملک بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 800 سے زائد ہوگئی ہے۔
خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق میانمار میں رواں سال فروری میں فوج نے نوبیل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو بے دخل کر کے انہیں اور ان کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی کے عہدیداروں کو حراست میں لے لیا تھا اور اس کے بعد سے میانمار میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
مزید پڑھیں: میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف تحریک کی فنڈنگ کیلئے آن لائن مہم شروع
فوج نے شہروں اور قصبوں میں جمہوریت کے حامیوں کے احتجاج کے خلاف مکمل طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جبکہ سرحدی علاقوں میں فوج اور نسلی باغیوں اور نئی تشکیل پانے والی ملیشیا اور فورسز کے مابین لڑائی کی بھی نئی لہر کا آغاز ہوا۔
سماجی گروپ اسسٹنٹ ایسوسی ایشن برائے سیاسی قیدیوں کے مطابق پیر کے روز تک مخالفین کے خلاف جنتا کے کریک ڈاؤن میں 802 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس گروپ نے اپنی روزانہ کی بریفنگ میں کہا کہ اس تعداد کی ہم نے تصدیق کی ہے اور اموات کی اصل تعداد غالباً اس سے کہیں زیادہ ہے۔
خبر ایجنسی رائٹرز آزادانہ طور پر ان ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کر سکی جبکہ فوجی ترجمان نے اس حوالے سے گفتگو کی درخواست پر تبصرے سے گریز کیا۔
فوجی حکومت نے اس سے قبل ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد پر اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ احتجاج کے دوران سیکیورٹی فورسز کے درجنوں اہلکار بھی مارے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار: اقتدار پر قبضے کے بعد فوج کی کارروائیوں میں 40 سے زائد بچے جاں بحق
مذکورہ گروپ نے بتایا کہ فی الحال 4ہزار 120 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان میں سے 20 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی ہے۔
یکم فروری کو ہونے والی بغاوت کے بعد سے حالیہ دنوں میں منڈات کے علاقے میں شدید لڑائی ہوئی ہے، یہ علاقہ بھارتی سرحد سے محض 100 کلومیٹر دور ہے جہاں میانمار کی فوج مقامی ملیشیا سے برسر پیکار ہے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ پیر کے روز شمال مغربی میانمار کے پہاڑی قصبے کے ہزاروں باشندے فوج کے جبرواستبداد سے بچنے کے لیے جنگل، دیہات اور قریبی وادیوں میں چھپے ہوئے ہیں۔
منڈات میں گزشتہ ہفتے مارشل لا کا اعلان کیا گیا تھا اور مارشل لا کے اعلان سے قبل فوج نے ان علاقوں پر بھاری ہتھیاروں اور ہیلی کاپٹر سے حملہ کیا تھا۔
شکاری رائفلوں سے مسلح ملیشیا کا کہنا تھا کہ وہ اس لیے پیچھے ہٹے ہیں تاکہ عام شہریوں کو فائرنگ کے تبادلے میں مرنے یا زخمی ہونے سے بچایا جا سکے۔
مزید پڑھیں: میانمار میں فوج کے اقتدار کے 100 روز، ملک پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ
رائٹرز کے پاس پہنچنے والے متعدد رہائشیوں نے بتایا کہ ان علاقوں میں خوراک کی فراہمی بہت کم ہو چکی ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس شہر سے 5 سے 8ہزار افراد فرار ہو گئے ہیں، سڑکیں اور راستے مسدود ہو گئے ہیں اور گلیوں میں فوج کی موجودگی ان لوگوں کی گھروں میں واپسی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
امریکہ اور برطانیہ نے فوج سے شہریوں کی ہلاکتوں سے گریز کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور سوچی کے وفاداروں کی جانب سے تشکیل کردہ قومی اتحادی حکومت نے بین الاقوامی طاقتوں سے مدد کی اپیل کی ہے۔
سفارت کاروں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منگل کو میانمار کو تمام ہتھیاروں اور اسلحے کی براہ راست اور بالواسطہ فراہمی، فروخت یا منتقلی کی روک تھام کے مسودے پر ووٹنگ ملتوی کردی گئی ہے۔
یہ فوری طور پر معلوم نہیں ہوسکا کہ ووٹنگ دوبارہ کب ہو گی، کچھ سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ مزید مدد حاصل کرنے کے لیے ووٹنگ کا عمل ملتوی کردیا گیا ہے۔
قرارداد کے مسودے میں میانمار کی فوج سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ہنگامی حالات ختم کرے، پرامن مظاہرین کے خلاف ہر طرح کے تشدد بند کرے اور نومبر کے انتخابات کے نتائج کی روشنی میں عوام کی منشا کا احترام کرے۔