بھارت میں سمندری طوفان تاؤتے سے تباہی، 24 افراد ہلاک
مغربی ہندوستان میں سمندری طوفان تاؤتے کے ٹکرانے سے 24 افراد ہلاک اور 100 کے قریب لاپتا ہو گئے، جس کے نتیجے میں کورونا وائرس کی تباہ کن لہر کا مقابلہ کرنے والے بھارت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پیر کی شام طوفان تاؤتے کے گجرات کے ساحل پر ٹکرانے کے بعد ہزاروں افراد بجلی سے محروم ہو گئے جبکہ کئی مقامات پر درخت گرنے سے اہم شاہراہیں بند ہو گئیں۔
مزید پڑھیں: سمندری طوفان تاؤتے بھارت کے ساحل سے ٹکرا گیا
حکام نے بتایا کہ 130 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں نے ساحلِ سمندری پر واقع مکانات کی کھڑکیوں کو توڑ دیا اور بجلی کی لائنوں اور ہزاروں درختوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا جس سے متاثرہ علاقوں کی طرف جانے والی سڑکیں بند ہو گئیں۔
اس موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بحیرہ عرب میں تیزی سے جنم لینے والا طوفان کا ایک تازہ ترین نظام ہے۔
قصبہ بھاونگر میں ایک ہوٹل کے مالک نے بتایا کہ میں نے اپنی زندگی میں اس قدر شدید طوفان کا سامنا کبھی نہیں کیا، ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی کیونکہ بجلی منقطع ہو چکی تھی اور تیز ہوائیں چل رہی تھیں، یہ ایک ڈراؤنا منظر تھا۔
ہندوستانی بحریہ نے منگل کے روز بتایا کہ ممبئی میں آٹھ میٹر سے اونچی لہریں بلند ہونے کے باعث تیل بردار بحری جہاز ڈوب گیا اور جہاز پر سوار 273 افراد میں سے 96 افراد لاپتا ہیں۔
وزارت دفاع نے بتایا کہ 177 افراد کو بچا لیا گیا ہے، بحری آپریشن انتہائی مشکل سمندری صورتحال میں جاری ہے، تین دیگر بحری جہاز بھی سمندری طوفان کے باعث مشکلات سے دوچار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سمندری طوفان: بھارت کی ساحلی ریاست سے ہزاروں افراد کی نقل مکانی
دوسری جانب منگل کے روز چار تازہ ہلاکتوں کی اطلاع ملی ہے، مرنے والوں میں ایک بچہ بھی شمال ہے جو ایک منہدم دیوار تلے دب کر ہلاک ہو گیا جبکہ کھمبے تلے دب کر 80 سالہ خاتون کی بھی موت ہو گئی۔
گجرات کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ طوفان کے نتیجے میں 16 ہزار 500 سے زیادہ مکانات کو نقصان پہنچا، 40 ہزار درخت جڑ سے اکھڑ گئے اور 2 ہزار 400 دیہات بجلی سے محروم ہو گئے۔
ساحلی ضلع میں 40 سے 50 موبائل فون ٹاور خراب ہو گئے اور وہاں کے مقامی عہدیدار عیش اوک نے بتایا کہ طوفان کے بعد بجلی یا مواصلات کا نظام میسر نہیں۔
اگرچہ یہ طوفان گزشتہ چند دہائیوں کے دوران آنے والے بدترین طوفانوں میں سے ایک تھا لیکن سابقہ آفات کی نسبت بہتر پیش گوئی کے نتیجے میں خطرے سے قبل دو لاکھ افراد کو وہاں سے محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا۔
مزید پڑھیں: بھارت: دریاؤں کے کنارے سے ریت میں دفن کی گئیں سیکڑوں لاشیں برآمد
وجے روپانی نے کہا کہ پچھلے تین دن سے ہم نے جو منصوبہ بندی کی تھی، اس کا نتیجہ برآمد ہو گیا، ہم انسانی ہلاکتوں کو کم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں لیکن چیلنجز اب بھی باقی ہیں۔
کووڈ-19 کی تباہی
موسم کا یہ مہلک نظام ایک ایسے وقت میں وارد ہوا ہے جب ہندوستان کے نظام صحت کو کورونا کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے اور پچھلے 24 گھنٹوں میں ریکارڈ 4 ہزار 329 افراد ہلاک ہوگئے۔
ممبئی میں تقریباً 600 کووڈ-19 مریضوں کو فیلڈ ہسپتالوں سے 'محفوظ مقامات' پر منتقل کر دیا گیا۔
گجرات میں ساحل سے 5 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہسپتالوں میں موجود کووڈ-19 کے تمام مریضوں کو دیگر مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے۔
حکام، ہسپتالوں اور 41 آکسیجن پلانٹ کو بجلی کی مسلسل فراہمی کے لیے کوشاں ہیں کیونکہ آکسیجن پلانٹ سے بجلی منقطع ہونے کی صورت میں مزید اموات ہو سکتی ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ایک ہزار 400 کووڈ-19 ہسپتالوں میں سے صرف 16 میں بجلی منقطع ہوئی، 12 ہسپتالوں میں بجلی بحال ہوگئی ہے اور چار جنریٹروں پر کام کر رہے ہیں۔
تاہم ، ڈاکٹروں کے مطابق کووڈ-19 کے ایک مریض کی موت مہووا کے قصبے میں اس وقت ہوئی جب طوفان کی زد میں آنے کی وجہ سے اسے بروقت ہسپتال منتقل نہ کیا جا سکا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں موسم اچانک تبدیل، گرد آلود طوفان کے ساتھ بارش
ریاست گجرات میں دو دن کے لیے ویکسینیشن کے عمل کو مؤخر کردیا گیا ہے جبکہ ممبئی نے بھی ایک دن کے لیے ایسا ہی کرنے کا اعلان کیا۔
ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کی بین الاقوامی فیڈریشن سے تعلق رکھنے والی ادیائے ریگمی نے کہا یہ طوفان ہندوستان کے لاکھوں لوگوں کے لیے ایک خوفناک دوہرا دھچکا ہے کیونکہ ان کے اہلخانہ پہلے ہی کووڈ-19 کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور متعدد ہسپتالوں میں موت سے لڑ رہے ہیں۔
گزشتہ سال مئی میں سپر سائیکلون ایمفن نے خلیج بنگال میں مشرقی ہندوستان اور بنگلہ دیش میں تباہی مچائی تھی جس کے نتیجے میں 110 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ہندوستان کے ماہر موسمیات روکسی میتھیو کول نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بحیرہ عرب کو خلیج بنگال کے مقابلے میں شدید طوفانوں کا کم سامنا کرنا پڑا ہے لیکن عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی گرمی درجہ حرارت میں تبدیلی آرہی ہے۔