انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد کس طرح بحال کیا جائے؟
انتخابی اصلاحات کی باتیں اِس وقت خبروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کے سیاستدان میڈیا اور ٹوئٹر پر ایک دوسرے کے خلاف تند و تیز بیانات داغ رہے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بیانات کسی سنجیدہ کوشش کے بجائے صرف زبانی جمع خرچ ہی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں دونوں جانب ہوم ورک کی کمی نظر آتی ہے۔
یہاں اعتماد کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ وزیرِاعظم کا دعویٰ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینز (ای وی ایمز) ’انتخابات کی ساکھ بحال کرنے کا واحد راستہ ہیں‘۔ حزب اختلاف کا خیال ہے کہ یہ ’انتخابات کو چوری کرنے‘ کا طریقہ ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے ’بلی کو دودھ کی رکھوالی پر لگا دیا جائے‘۔
جمہوریت کی تاریخ میں یہ طرزِ عمل نیا نہیں ہے۔ عام طور اس مفروضے کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک مقولہ پیش کیا جاتا ہے جو غلط طور پر جوزف اسٹالن سے منسوب ہے، اور وہ مقولہ یہ ہے کہ ’ووٹ کاسٹ کرنے والے کسی چیز کا فیصلہ نہیں کرتے۔ ووٹ گننے والے ہی سب کچھ کرتے ہیں‘۔
تو آخر کس کی بات درست ہے؟ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی وجہ سے بھارت میں انتخابی فراڈ میں کمی آئی ہے۔ ان مشینوں کی وجہ سے زبردستی بیلیٹ بکس بھرنے اور پولنگ بوتھ پر قبضہ کرنے کے واقعات کی روک تھام ہوئی اور انتخابی نتائج فوری طور پر رپورٹ ہوئے۔ برازیل میں بھی یہ مشینیں بہت کامیاب رہی ہیں، وہاں انہیں 25 سال قبل متعارف کروایا گیا تھا اور کچھ معمولی مسائل کے باوجود ان کی ساکھ برقرار ہے۔
مزید پڑھیے: 'حکومت الیکٹرانک ووٹنگ کا منصوبہ دھاندلی کیلئے لارہی ہے'
برازیل کے ساتھ ہی ایک ملک وینیزویلا واقع ہے۔ وہاں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو تقریباً برازیل کے ساتھ ہی متعارف کروایا گیا تھا لیکن وہاں ان مشینوں کے بارے میں عوام کی رائے بالکل مختلف ہے۔ ان مشینوں پر عدم اعتماد اتنا واضح ہے کہ سیاسی کارکنوں نے طنزیہ لہجے میں یہ تبصرہ کیا کہ صدر نکولس مادورو انتخابات میں یسوع مسیح کو بھی شکست دے دیں گے۔ پیپر ٹریل اور مشینوں کا آڈٹ بھی ان مشینوں کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کو ختم نہیں کرسکا۔
بین الاقوامی محققین نے کچھ ایسے مشکوک انتخابی رجحانات تلاش کیے ہیں جو شاویز دور تک جاتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں فراہم کرنے والی کمپنی اسمارٹ میٹک نے خود ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ ووٹر ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار میں 10 لاکھ ووٹوں تک کی گڑبڑ کی گئی ہے۔ بھارت اور فلپائن جیسے ممالک میں فراڈ کے خدشات عام ہیں، بلکہ اب تو امریکا بھی اس کی زد میں آگیا ہے۔
ہمیں خود سے یہ سوالات پوچھنے کی ضرورت ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ کچھ ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا تجربہ کامیاب رہا اور کچھ میں ناکام؟ کیا ہم اس ضمن میں کامیابی کی ضامن چیزوں کی شناخت کرسکتے ہیں؟ اور کیا ہم ان مشینوں کو اس طرح تیار کرسکتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں ان پر اعتماد میں اضافہ ہو۔
حکومت بھارت میں استعمال ہونے والی مشینوں جیسی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کی بات کر رہی ہے۔ یہ مشینیں کم قیمت اور حجم میں چھوٹی ہوں گی جن میں نتائج کے فوری حصول کے لیے گنتی کا سادہ سا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ اس میں مشین کے کسی نقص یا تنازعات کے حل کے لیے ووٹر ویری فائے ایبل پیپر آڈٹ ٹریل (VVPAT) کا استعمال بھی کیا جائے گا۔ یہاں سب سے کمزور کڑی انتظامی اور انتخابی عملہ ہے۔ عملے کے بارے میں اس بات کا اطمینان ہونا ضروری ہے کہ وہ مشینوں کو ٹیمپر نہیں کرے گا، بیلیٹ بکس نہیں بھرے گا اور پیپر ٹریل کے تقدس کو پامال نہیں کرے گا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے اس ماڈل کو اس وقت بھارت میں بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مزید پڑھیے: 'اگلا الیکشن الیکٹرانک ووٹنگ کی بنیاد پر ہوگا'
اس بات کے کافی ثبوت موجود ہیں کہ دنیا میں ووٹنگ کے طریقہ کار کے حوالے سے نئے اور پہلے سے بہت بہتر ماڈل کو اپنایا جارہا ہے۔ انتخابی ٹیکنالوجی میں کچھ انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں جن کی مدد سے انتخابی عمل میں مزید شفافیت آسکتی ہے۔
فرض کیجیے کہ انتخابات کے دن عذرا نامی ایک شہری پولنگ بوتھ میں جاتی ہے اور ایک اہل ووٹر کے طور اپنی شناخت کرواتی ہے۔ پولنگ بوتھ میں وہ اپنی پسند کے امیدوار کا انتخاب کرتی ہے اور مشین پر لگا بٹن دبا دیتی ہے۔ ایک روایتی مشین کی طرح اس مشین میں سے ایک پیپر ٹریل جاری ہوتی لیکن اس میں ایک چیز کا اضافہ ہوتا ہے۔ اس پیپر ٹریل میں ایک چھوٹی سے رسید بھی شامل ہوتی ہے جسے عذرا اپنے ساتھ گھر لے جاسکتی ہے۔ اس رسید پر ایک سیریل نمبر اور تصدیقی کوڈ درج ہوتا ہے۔ اس کوڈ کی مدد سے وہ اپنے ووٹ کو کرپٹوگرافیکل طریقے سے ٹریک کرسکتی ہے۔ یہ رسید عذرا کے منتخب کردہ امیدوار کو ظاہر نہیں کرے گی اور اس طرح وہ اس رسید کے ذریعے ووٹ بیچ نہیں سکے گی۔
پولنگ مکمل ہونے اور نتائج کا اعلان ہونے کے بعد انتخابی عملہ تمام رسیدوں کی کاپیاں الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری کردیتا ہے۔ یوں عذرا اپنے پاس موجود رسید پر درج سیریل نمبر کو ویب سائٹ پر موجود نمبر سے ملا لیتی ہے۔ اگر کسی نے اس کے ووٹ کو ٹیمپر کیا ہوگا تو وہ دونوں کاپیاں ایک سی نہیں ہوں گی اور اس بنیاد پر وہ اپنے پاس موجود رسید کی مدد سے شکایت درج کرواسکے گی۔
اعداد و شمار کے تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر ووٹروں کی بہت قلیل تعداد نے بھی اپنے ووٹ کی تصدیق کی تو اس طرح بڑے پیمانے پر ہونے والی کسی دھاندلی کا سراغ لگایا جاسکے گا۔ عذرا ایک بٹن دبا کر اس بات تصدیق بھی کرسکے گی کہ اس کا ووٹ درست درج ہوا ہے۔
جس کرپٹوگرافی کی مدد سے یہ سب کچھ ممکن ہوگا وہ پیچیدہ تو ضرور ہے لیکن بہت زیادہ مشکل بھی نہیں ہے۔ بنیادی طور پر پروگرامنگ کی سمجھ بوجھ رکھنے والے کچھ محب وطن شہری بھی کچھ دنوں میں اسے بنا سکتے ہیں، یہ ایک طرح کا آزاد آڈٹ ہوگا۔ کیو آر کوڈز، اسمارٹ فون ایپلیکیشنز اور موبائل ایس ایم ایس کی سہولیات اس عمل کو برق رفتار بنا سکتے ہیں۔ ’قابل تصدیق ووٹنگ‘ کی یہ سہولت اس وقت الیکٹرک ووٹنگ مشینوں اور انٹرنیٹ ووٹنگ کے لیے تیار کی جارہی ہیں۔
الیکٹرانک ووٹنگ میں اس ماڈل کو بہت مقبولیت حاصل ہورہی ہے کہ جس میں ہر شہری اپنے گھر میں بیٹھ کر انتخابی عمل کے ہر مرحلے پر نظر رکھ سکے گا۔ دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کی جانب سے بھی اس ٹیکنالوجی کی پذیرائی کی جارہی ہے۔
امریکا کی یو ایس نیشنل اکیڈمی آف سائنس ایک طرح سے دنیا کی سب سے زیادہ جانی مانی سائنسی باڈی ہے۔ اس نے اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ اس وقت تک انٹرنیٹ ووٹنگ کے بارے میں سوچا بھی نہ جائے جب تک اس میں قابلِ تصدیق ووٹنگ کا نظام موجود نہ ہو اور اس نظام کو انٹرنیٹ ووٹنگ کے لیے استعمال کرنے سے پہلے اس کا اطلاق الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر کیا جائے۔
اس طرح کے نظام کا تجربہ آسٹریلیا کے ریاستی انتخابات سمیت کئی چھوٹے پیمانے پر ہونے والے انتخابات میں کیا جاچکا ہے۔ قومی سطح پر ان کا پہلا استعمال 2019ء میں استونیا کے پارلیمانی انتخابات میں ہوا تھا۔ اس وقت اس نظام کی کمرشل تیاری بس شروع ہونے کو ہے۔ مائیکرو سافٹ الیکٹرانک ووٹنگ مشین فراہم کرنے والی بڑی کمپنیوں جیسے اسمارٹ میٹک، ہارٹ انٹر سوک، ڈومینین ووٹنگ سسٹم، کلیئر بیلیٹ اور دیگر کے ساتھ مل کر اس ٹیکنالوجی کے ٹیسٹ کے لیے تیار ہے۔ کولمبیا یونی ورسٹی کے ساتھ مل کر اس ٹیکنالوجی کے تجربات ترتیب دیے جاچکے ہیں۔ وبا کی وجہ سے کچھ تاخیر ضرور ہورہی ہے لیکن تبدیلی اب بس آنے کو ہے۔
ہمارے لیے یہاں ایک بہت بڑا موقع ہے کہ ہم اس تجربے میں شامل ہوجائیں لیکن ہم مکمل طور پر تاریکی میں ہیں۔ ہمارے پاس انتخابی ٹیکنالوجی میں کوئی تکنیکی مہارت نہیں ہے۔ ہم بین الاقوامی رجحانات سے لاتعلق ہیں۔ یہاں قومی سطح پر ہونے والے مباحث میں بھی ایک دہائی پرانے نکات ہی دہرائے جاتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جب تک ہمارے ملک میں بھارتی طرز کی چمچماتی الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں تیار ہونا شروع ہوں گی تب تک بھارت شاید قابل تصدیق ووٹنگ تک پہنچ چکا ہو۔ اس سے صرف اسی صورت میں بچا جاسکتا ہے کہ ہم خود کو جنگی بنیادوں پر تیار کریں۔ بھارت کے الیکشن کمیشن نے آئی آئی ٹی مدراس کے ساتھ مل کر استونیا کے نئے انتخابی نظام کا مطالعہ شروع کردیا ہے۔
گزشتہ سال حیدر آباد کے میونسپل انتخابات میں اس کا تجربہ کیا گیا۔ اس حوالے سے عوام میں بھی خوب آگہی موجود ہے۔ اس شعبے میں اپنے دس سالوں کے دوران اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے سب سے مضبوط دلیل بھی میں نے بھارتی سول سوسائٹی سے سنی ہے۔ یہ ایک رپورٹ کی صورت میں تھی جس کا میں ایک گزشتہ مضمون میں حوالہ دے چکا ہوں۔ اس رپورٹ کا عنوان تھا کہ ’کیا بھارتی ای وی ایمز اور VVPAT جمہوری انتخابات کے لیے موزوں ہیں؟‘
ان کی دلیل کا مفہوم یہ تھا کہ بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے پر فخر ہے۔ موجودہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں کئی ’سنجیدہ نقائص موجود ہیں جو انتخابی جمہوریت کے لیے مہلک ثابت ہوسکتے ہیں‘۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ انتخابات میں بھی جمہوری اصولوں کو اپنایا جائے؟ تو کیوں نہ ایک ایسا نظام تیار کیا جائے جہاں شہری خود بھی انتخابی عمل پر نظر رکھ سکیں اور اس بات کی تصدیق کرسکیں کہ ان کا کاسٹ کیا گیا ووٹ گن لیا گیا ہے۔
ہمیں پاکستان میں بھی اس قسم کی سوچ کی شدید ضرورت ہے۔
یہ مضمون 16 مئی 2021ء کو ڈان ای او ایس میں شائع ہوا۔
تبصرے (4) بند ہیں