اسرائیل میڈیا کی عمارت پر حملے کا جواز فراہم کرے، امریکا کا مطالبہ
امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فضائی حملے میں تباہ کی گئی عمارت میں حماس کے کام کرنے کے ثبوت طلب کر لیے ہیں لیکن تاحال ابھی تک کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے گئے۔
خبر ایجنسی اے پی کے مطابق غزہ میں اسرائیلی فضائیہ کی بمباری سے کثیرالمنزلہ عمارت زمین بوس ہو گئی تھی، اس عمارت میں رہائشی مکانوں کے ساتھ ساتھ نامور بین الاقوامی اداروں کے دفاتر بھی موجود تھے۔
مزید پڑھیں: غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری، جاں بحق فلسطینیوں کی تعداد 192 ہوگئی
اسرائیل کا کہنا تھا کہ اس نے حماس کی جانب سے حملہ کرنے والوں کی عمارت میں موجودگی کے پیش نطر اسے نشانہ بنایا لیکن ابھی تک وہ اس حوالے سے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کر سکا۔
ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انٹونی بلنکن نے کہا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل اور حماس کے مابین تازہ چھڑپوں کے بعد جنگ بندی کے لیے بائیڈن انتظامیہ پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
مذکورہ عمارت میں الجزیرہ اور ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے دفاتر موجود تھے اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ انہوں نے خفیہ اطلاعات پر اس عمارت کو نشانہ بنایا۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے عمارت پر حملے کا دفاع کرتے ہوئے ٹی وی پر قوم سے خطاب میں اسے بالکل جائز ہدف قرار دیا۔
امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ نے پیر کو کہا کہ حملے کے فوراً بعد ہم نے ان سے اس کا جواز طلب کر لیا تھا البتہ انہوں نے کسی خفیہ معلومات کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے ابھی تک کوئی بھی معلومات نہیں دیکھیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی غزہ پربمباری جاری، اے پی، الجزیرہ سمیت میڈیا کے دفاتر بھی تباہ
بلنکن کے یہ بیانات ایک ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب ہفتے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سفارت کاروں اور مسلم ریاستوں کے وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجلاس میں شہریوں کی خونریزی روکنے کے مطالبات کیے گئے جہاں ایک ہفتے سے اسرائیلی فضائیہ کی بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔
ڈیموکریٹس کی جانب سے مستقل اصرار اور عوامی دباؤ کے باوجود امریکی صدر جو بائیڈن سیز فائر کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا فوری طور پر کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
بائیڈن کی اقوام متحدہ میں سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اعلیٰ سطح کے اجلاس کو بتایا تھا کہ امریکا لڑائی روکنے کے لیے سفارتی ذرائع سے انتھک محنت کر رہا ہے۔
لیکن اسرائیل اور غزہ میں حماس کے حکمرانوں کے مابین لڑائی 2014 کے بعد بدترین سطح پر آ گئی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر شدید احتجاج کے باوجود امریکا ابھی تک اسرائیل کی مذمت کرنے سے انکاری ہے اور اس نے وہاں اپنا سفیر بھی نہیں بھیجا، دیگر ملکوں کی جانب سے اپیلوں کے باوجود بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
تھامس گرین فیلڈ نے خبردار کیا کہ مسلح تصادم کے نتیجے میں کئی دہائیوں پرانے اسرائیلی-فلسطین تنازع کے لیے مذاکرات کے ذریعے دو ریاستی حل کا خواب دسترس سے دور ہو جائے گا۔
مزید پڑھیں: عیدالفطر پر بھی اسرائیل کے غزہ میں حملے، 24 بچوں سمیت جاں بحق افراد کی تعداد 103 تک پہنچ گئی
اسرائیل کے سب سے قریبی اتحادی ناروے اور تیونس، چین کی جانب سے کئی دنوں سے جاری کوششوں کی راہ میں حائل ہیں جس کی وجہ سے سلامتی کونسل بیان جاری کرنے کے ساتھ ساتھ اس کشمکش کو روکنے کا مطالبہ کرنے سے بھی قاصر ہے۔
ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرپرسن ایڈم شیف نے اتوار کے روز بائیڈن پر زور دیا کہ وہ تنازع کے خاتمے اور مذاکرات کی بحالی کے لیے فریقین پر دباؤ ڈالیں۔
انہوں نے امریکی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ انتظامیہ کو اسرائیل اور فلسطینی حکام پر تشدد کو روکنے، جنگ بندی، دشمنیوں کے خاتمے اور اس دیرینہ تنازع کو حل کرنے کی کوشش کرنے والے عمل پر واپس آنے کے لیے سختی سے دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
بائیڈن نے ہفتے کے روز نیتن یاہو سے فون پر گفتگو کی جس میں میں حماس کے راکٹوں سے شہریوں کی ہلاکتوں پر توجہ مرکوز رکھی گئی اور وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں علاقائی طاقتوں کے اصرار کے باوجود اسرائیل پر سیز فائر کے لیے کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔
اتوار کے روز غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں میں تین عمارتیں زمین بوس اور کم از کم 42 افراد جاں بحق ہو گئے اور اب تک اسرائیلی فضائہ کے حملوں میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی غزہ پر پیر کی صبح بھاری بمباری، ’ہسپتالوں تک جاتی تمام سڑکیں تباہ‘
نیتن یاھو نے اتوار کے روز خطاب میں اسرائیلیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل چاہتا ہے کہ حماس بھاری قیمت ادا کرے اور جنگ کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں وقت لگے گا۔
اتوار کے روز مسلم ممالک کے نمائندوں نے بھی اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کی پٹی میں حملوں کا سلسلہ بند کریں۔